پھر پنچھی پر تول رہا ہے
آوازوں کا جنگل گھنا ہے
پر اک صدا سب سے جدا ہے
سرحد پار سے آنیوالے مہمانوں سے
بول تول کا بازار گرم ہے
پھر تاریخ خود کو دھرانے کھڑی ہے
سر بام محلاتی رنگ رنگلیوں میں
کتنے طوفان چھپے ہیں
قریے سنسان ، چپ چاپ ہیں بستیاں
اس سناٹے میں بھی
بوٹوں کی صدا شور بن کے
سمے کی گنتی بھولا رہی ہے
اگر
ہوسکے تو
جاتے سمے نظریں ملا لینا
جنتا کو یہ سمجھا دینا
زنداں کی مسافت کیوں تنہا کاٹی ہے
نگاہیں آسمان پر تھیں
زمین تعظیم کرتی تھی
ہم وہ مسافر تھے
ماں جس کا انتظار کرتی تھی
(ملکہ افروز روہیلہ 2 اپریل 14ء )