اڑتے ہوئے پرندوں کے شہ پر سمیٹ لوں
جی چاہتا ہے شام کے منظر سمیٹ لوں
لب پر اگاؤں اس کے دھنک پھول قہقہے
آنکھوں میں اس کی پھیلا سمندر سمیٹ لوں
پہلے ملن کا پھول کھلے روح میں تری
باہوں میں تجھ کو لے کے ترے ڈر سمیٹ لوں
ممکن نہیں ہے پھر بھی میں یہ چاہتا ہوں کیوں
اخبار پر سلگتے ہوئے گھر سمیٹ لوں
چادر دوں اپنے عہد کی زینب کو اور بڑھوں
نیزوں پہ جو سجے ہیں سبھی سر سمیٹ لوں