اڑی جو گرد تو اس خاک داں کو پہچانا
اور اس کے بعد دل بے نشاں کو پہچانا
جلا جو رزق تو ہم آسماں کو جان گئے
لگی جو پیاس تو تیر و کماں کو پہچانا
چلو یہ آنکھ کا جل تھل تو تم نے دیکھ لیا
مگر یہ کیا کہ نہ ابر رواں کو پہچانا
بہار آئی تو ہر سو تھیں کترنیں اس کی
بہار آئی تو ہم نے خزاں کو پہچانا
خود اپنے غم ہی سے کی پہلے دوستی ہم نے
اور اس کے بعد غم دوستاں کو پہچانا
سفر طویل سہی حاصل سفر یہ ہے
وہاں کو بھول گئے اور یہاں کو پہچانا
زمیں سے ہاتھ چھڑایا تو فاصلے جاگے
مگر نہ ہم نے کراں تا کراں کو پہچانا
عجب طرح سے گزاری ہے زندگی ہم نے
جہاں میں رہ کے نہ کار جہاں کو پہچانا