اک اور رہبر فرزانہ کو اس چمن آنا ہو گا
ان فصلی بٹیروں سے فصل چمن کو بچانا ہو گا
ہوا کے جھونکوں نے مند دیے ہیں چراغ چمن
مجھے خون جگر سے ان کو پھر سے جلانا ہو گا
شہداء نے لہو دے کے سیراب کی ہے یہ زمیں
اب سمئہ ہے اسے بھی پھولوں کو کھلانا ہو گا
یہ وطن اسلام کے نام پہ تھا آزاد ہوا
لا الہ الا اللہ کو پھر سے دہرانا ہو گا
گیٔ ہے کھو بارق ملت لسانیت میں
اک ہے نَصْبُ الْعَین ان کا پھر سے بتانا ہو گا