اک بوند تھی لہو کی سر دار تو گری یہ بھی بہت ہے خوف کی دیوار تو گری کچھ مغبچوں کی جرأت رندانہ کے نثار اب کے خطیب شہر کی دستار تو گری کچھ سر بھی کٹ گرے ہیں پہ کہرام تو مچا یوں قاتلوں کے ہاتھ سے تلوار بھی گری