اک خلش اک کرب پنہاں میری خاکستر میں ہے
میرا دشمن حادثہ یہ ہے کہ میرے گھر میں ہے
کون کس کے اشک پونچھے کون کس کا دکھ بٹائے
جو ہے وہ محرومیوں کے گنبد بے در میں ہے
ضرب تیشہ چاہئے اور دست آزر چاہئے
اک جہان خال و خد خوابیدہ ہر پتھر میں ہے
اس زمانے میں مری سادہ دلی میرا خلوص
ایک منظر ہے مگر بے ربط پس منظر میں ہے
بیچ دی خاورؔ یہاں یاروں نے ناموس وفا
تو بھی پیارے کس بھلاوے میں ہے کس چکر میں ہے