اک ذرا سی بات پر وہ مجھ پہ برہم ہو گئے
چھو کے گیسو کہہ دیا میں نے بڑے خم ہو گئے
وعدہ جلوہ گری اب تک نہ پورا ہو سکا
کتنی عیدیں ہو گئیں کتنے محرم ہو گئے
عشق کے میداں میں کیا ہے ہم نحیفوں کی بساط
کیسے کیسے پہلواں دیکھو چونگم ہو گئے
مل گئے اس کی گلی کے موڑ پر کل کچھ رقیب
پشت عاشق پر دھماکے دھم دھما دھم ہو گئے
خصلت جوں اے حسن تم میں یہ کب سے آ گئی
کیا ہوا کیونکر اسیر زلف پر خم ہو گئے