اک زخم بھی یاران بسمل نہیں آنے کا
مقتل میں پڑے رہیے قاتل نہیں آنے کا
اب کوچ کرو یارو صحرا سے کہ سنتے ہیں
صحرا میں اب آئندہ محمل نہیں آنے کا
واعظ کو خرابے میں اک دعوت حق دی تھی
میں جان رہا تھا وہ جاہل نہیں آنے کا
بنیاد جہاں پہلے جو تھی وہی اب بھی ہے
یوں حشر تو یاران یک دل نہیں آنے کا
بت ہے کہ خدا ہے وہ مانا ہے نہ مانوں گا
اس شوخ سے جب تک میں خود مل نہیں آنے کا
گر دل کی یہ محفل ہے خرچہ بھی ہو پھر دل کا
باہر سے تو سامان محفل نہیں آنے کا
وہ ناف پیالے سے سرمست کرے ورنہ
ہو کے میں کبھی اس کا قائل نہیں آنے کا