اک شمع عقیدت کی مدینے میں بیاں ہے
آتی ہوں وہاں روز نئی آس عیاں ہے
ہے خاک مدینہ ہی مری آنکھ کا سرمہ
رکھتی ہوں محبت سے میں دل کی یہ زباں ہے
انساں ہی نہیں حور و ملک بھی ہیں ثنا خواں
کس جا نہ ہوا احمدِ مختار نیاں ہے
اَخلاق ہی سرکارِ دوعالم کے تھے ایسے
دشمن ہوئے تائب کیا کردار جہاں ہے
اک جست میں طے ہوگی ہر رفعتِ کونین
داناؤ ں میں ہے آپ کی رفتاررواں ہے
وہ رنگِ بیاں آپ کا اعجازِ کلامی
فُصحاے عرب کرتے ہیں گفتار بیاں ہے
کیا مدح کروں سیّدِ کونین کی لوگو
قرآن بھی جب کرتا ہے سرکارنشاں ہے