سمے کے رستے میں بیٹھنے سے
تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے
اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں
جن کی لاشیں اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے!
ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید
پر ان کا مطلب بتانے والا کوئی نہیں ہے!
وہ سارے رسے روائتوں کے جن کی گرہیں کسی ہوئی ہیں
ہمارے ہاتھوں سر اور پاﺅں سے لے کے خوابوں کی گردنوں تک
ہماری رُوحوں میں کھُبتے جاتے ہیں
اور ہم کو بچانے والا، چھڑانے والا کوئی نہیں ہے!
زباں پہ زنجیر سی پڑی ہے
دلوں میں پھندے ہیں
اور آنکھوں میں شامِ زنداں کی بے کسی ہے
چراغ سارے بجھے پڑے ہیں جلانے والا کوئی نہیں ہے!
مرے عزیزو مجھے یہ غم ہے
جو ہو چکا ہے بہت ہی کم ہے
سمے کے رستے میں بیٹھے رہنے کے دن بھی اب ختم ہو رہے ہیں
بچے کھچے یہ جو بال و پر ہیں
جو راکھ داں میں سُلگنے والے یہ کچھ شرر ہیں
ہمارے بچوں کے سر چھپانے کو جو یہ گھر ہیں
اب ان کی باری بھی آ رہی ہے
وہ ایک مہلت جو آخری تھی
وہ جا رہی ہے
تو اس سے پہلےزمین کھائے
ہمارے جسموں کو اور خوابوں کو
اور چہروں پہ اپنے دامن کی اوٹ کر دے
یہ سرد مٹی جو بھُر بھُری ہے
ہماری آنکھوں کے زرد حلقے لہو سے بھر دے
مرے عزیزو چلو کہ آنکھوں کو مل کے دیکھیں
کہاں سے سورج نکل رہے ہیں
سمے کے رستے پہ چل کے دیکھیں