وفا کے جذبے کا اظہار دم ہلانا ہے
جو دم کھڑی ہے وہ نفرت کا تازیانہ ہے
جو لمبی دم ہے وہ عالی صفات ہوتی ہے
جو مختصر ہے وہ بڑی واہیات ہوتی ہے
وہ جندا مکمل نہیں ادھورا ہے
وہ جس کے دم نہیں ہوتی وہ لنڈورا ہے
جہاں میں یوں تو ہے مقام اونچا انساں کا
مگر لنڈوروں میں آتا ہے نام انساں کا
میں سوچتا ہوں کہ جو انساں کے دم لگی ہوتی
کسر جو رہ گئی تھی وہ بھی نہیں رہتی
اور وہ اپنی جان بچانے کو یہ سپر لیتا
جو کام ہاتھ سے نہیں کرسکتا وہ دم سے کرلیتا
کچھ اس طرح سے رد عمل ہوا کرتا
گزرتی دل پے تو دم پے اثر ملتا
خوشی کا جذبہ ابھرتا تو دم اچک جاتی
کوئی اداس جو ہوتا تو دم لٹک جاتی
کسی پے دھونس جماتا تو دم اٹھا لیتا
کسی سے دھونس جو کھاتا تو دم دبا لیتا
بزرگ لوگ جوانوں سے جب خفا ہوتے
زباں پے ان کی یہ الفاظ برملا ہوتے
تمہیں خبر نہ تھی کیسی آن بان کی دم
کٹا کے بیچ دی تم نے تو خاندان کی دم
اور کہیں فاتخ اعظم جو کوئی کھڑا ہوتا
میرے خیال میں یوں پوز وہ دے رہا ہوتا
بڑے غرورسے لہراتا وہ دم اپنی
بجائے مونچھوں کے وہ سہلاتا وہ دم اپنی
اور اسمبلی میں جو کوئی دستور نیا بنا کرتا
شمارے رائے کچھ اس طرح سے ہوا کرتا
جو لوگ اس کے موافق ہیں دم اٹھا لیں وہ
جو لوگ اس کے مخالف ہیں دم گرا دیں وہ
امیر لوگوں کی دم میں انگھوٹیاں ہوتیں
اور انگھوٹیوں میں نگینوں کی بوٹیاں ہوتیں
گھمنڈ اور بھی بڑھ جاتا اور بھی اتراتے
یہ لوگ جب گھڑی اپنی دم میں لٹکاتے
غریب لوگ بھی کسی طرح سے نبھا لیتے
نہ ملتا کچھ تو دموں کو فقط رنگا لیتے
اور جو مفلسی سے اپنی کبھی کوئی جھلاتا
تو ہسپتال میں لے جا کے دم کٹا آتا
وزیر لوگ یہ کہتے کے عوام اپنے دم کو کٹائیں
اور ہماری دم کے برابر میں اپنی دم کو نہ لائیں
عوام سارے اس بات پہ دم اپنی اٹھا لیتے
اور انقلاب کا پرچم وہ اسی دم کو بنا لیتے
حسین لوگوں کی پھولوں سے دم ڈھکی ہوتی
کہ پھلجڑی سی فضاؤں میں چھوٹ رہی ہوتی
اور دموں سے یہ قدے زیبا کچھ اور سج جاتے
کہاں کی زلف کہ دم میں ہی دل الجھ جاتے
اور یہ افتخار ہم عاشقوں کو جو مل جاتا
ہر اک غنچہ امید دل کا کھل جاتا
کسی کی بزم میں ہم اپنا یوں پتہ دیتے
بجائے پاوں دبانے کے دم دبا دیتے
اور کبھی کمند کا جو کام دم سے ہوجاتا
ہم عاشقوں کا بڑا نا م دم سے ہوجاتا
اشارہ کرے وہ ہمیں دم اپنی جو لٹکا دیتے
ہم ان کے کوٹھے پے دم پکڑ کے چڑ جاتے
ہماری راہ کا ہر کانٹ پھول ہو جائے
اگر دعا ہماری یہ قبول ہو جائے
کہ آدمی کے لیے دم بہت ضروری ہے
بغیر دم کے ہر آدمی لنڈورا عورت لنڈوری ہے