اگر کعبہ کا رخ بھی جانب مے خانہ ہو جائے
Poet: Bedam Shah Warsi By: tanvir, khi
اگر کعبہ کا رخ بھی جانب مے خانہ ہو جائے
تو پھر سجدہ مری ہر لغزش مستانہ ہو جائے
وہی دل ہے جو حسن و عشق کا کاشانہ ہو جائے
وہ سر ہے جو کسی کی تیغ کا نذرانہ ہو جائے
یہ اچھی پردہ داری ہے یہ اچھی رازداری ہے
کہ جو آئے تمہاری بزم میں دیوانہ ہو جائے
مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر
دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے
تری سرکار میں لایا ہوں ڈالی حسرت دل کی
عجب کیا ہے مرا منظور یہ نذرانہ ہو جائے
شب فرقت کا جب کچھ طول کم ہونا نہیں ممکن
تو میری زندگی کا مختصر افسانہ ہو جائے
وہ سجدے جن سے برسوں ہم نے کعبہ کو سجایا ہے
جو بت خانے کو مل جائیں تو پھر بت خانہ ہو جائے
کسی کی زلف بکھرے اور بکھر کر دوش پر آئے
دل صد چاک الجھے اور الجھ کر شانہ ہو جائے
یہاں ہونا نہ ہونا ہے نہ ہونا عین ہونا ہے
جسے ہونا ہو کچھ خاک در جانانہ ہو جائے
سحر تک سب کا ہے انجام جل کر خاک ہو جانا
بنے محفل میں کوئی شمع یا پروانہ ہو جائے
وہ مے دے دے جو پہلے شبلی و منصور کو دی تھی
تو بیدمؔ بھی نثار مرشد مے خانہ ہو جائے
تو پھر سجدہ مری ہر لغزش مستانہ ہو جائے
وہی دل ہے جو حسن و عشق کا کاشانہ ہو جائے
وہ سر ہے جو کسی کی تیغ کا نذرانہ ہو جائے
یہ اچھی پردہ داری ہے یہ اچھی رازداری ہے
کہ جو آئے تمہاری بزم میں دیوانہ ہو جائے
مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر
دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے
تری سرکار میں لایا ہوں ڈالی حسرت دل کی
عجب کیا ہے مرا منظور یہ نذرانہ ہو جائے
شب فرقت کا جب کچھ طول کم ہونا نہیں ممکن
تو میری زندگی کا مختصر افسانہ ہو جائے
وہ سجدے جن سے برسوں ہم نے کعبہ کو سجایا ہے
جو بت خانے کو مل جائیں تو پھر بت خانہ ہو جائے
کسی کی زلف بکھرے اور بکھر کر دوش پر آئے
دل صد چاک الجھے اور الجھ کر شانہ ہو جائے
یہاں ہونا نہ ہونا ہے نہ ہونا عین ہونا ہے
جسے ہونا ہو کچھ خاک در جانانہ ہو جائے
سحر تک سب کا ہے انجام جل کر خاک ہو جانا
بنے محفل میں کوئی شمع یا پروانہ ہو جائے
وہ مے دے دے جو پہلے شبلی و منصور کو دی تھی
تو بیدمؔ بھی نثار مرشد مے خانہ ہو جائے
میرے ساقی مجھے مست مے عرفاں کرنا
داغ دل سینے میں آہوں سے نمایاں کرنا
ہم سے سیکھے شب غم کوئی چراغاں کرنا
حرم و دیر میں جا جا کے چراغاں کرنا
جستجو تیری ہمیں تا حد امکاں کرنا
دل کے بہلانے کا وحشت میں یہ ساماں کرنا
چشم خوں بار سے دامن کو گلستاں کرنا
ہوس سیر گلستاں نے قفس دکھلایا
اب اسیرو نہ کبھی قصد گلستاں کرنا
اہل بیداد کے جب نام پکارے جائیں
تم نہ گھبرا کے سر حشر کہیں ہاں کرنا
نہ کبھی میں نے کہا تھا کہ مجھے درد ملے
نہ کہوں گا کہ مرے درد کا درماں کرنا
ان کے دیوانوں کو سر پھوڑ کے دیواروں سے
آج منظور ہے آرائش زنداں کرنا
شیخ کو کعبہ مبارک ہو برہمن کو کنشت
ہم کو سجدہ طرف کوچۂ جاناں کرنا
اے صبا تجھ کو اسی زلف پریشاں کی قسم
میرا شیرازۂ ہستی بھی پریشاں کرنا
ان کے دیوانوں کی اعجاز نگاہی دیکھو
آنکھ اٹھانا کہ گلستاں کو بیاباں کرنا
داغ دل پردے میں رہ جائے نہ اے دست جنوں
چاک کچھ اور ابھی میرا گریباں کرنا
لا کے پھر مصر میں اے عشق کسی یوسف کو
پھر نئے رنگ سے آرائش زنداں کرنا
دشت غربت میں ترے خاک نشیں اچھے ہیں
چاہئے اور انہیں بے سر و ساماں کرنا
ذوق سجدہ تجھے سنگ در جاناں کی قسم
ہوش کا مجھ کو نہ شرمندۂ احساں کرنا
اٹھ رہے ہیں مرے نظروں سے دوئی کے پردے
کچھ مدد اور خیال رخ جاناں کرنا
بن گئے حیرت نظارہ کی صورت بیدمؔ
راس آیا نہ ہمیں دید کا ارماں کرنا
ایک طرف کعبے کے جلوے ایک طرف بت خانہ تھا
دلبر ہیں اب دل کے مالک یہ بھی ایک زمانہ ہے
دل والے کہلاتے تھے ہم وہ بھی ایک زمانہ تھا
پھول نہ تھے آرائش تھی اس مست ادا کی آمد پر
ہاتھ میں ڈالی ڈالی کے ایک ہلکا سا پیمانہ تھا
ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی بے ہوشی میں پھر ہوش کہاں
یاد رہی خاموشی تھی جو بھول گئے افسانہ تھا
دل میں وصل کے ارماں بھی تھے اور ملال فرقت بھی
آبادی کی آبادی ویرانے کا ویرانہ تھا
اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی
مستانہ ہر ایک ادا تھی ہر عشوہ مستانہ تھا
شمع کے جلوے بھی یارب کیا خواب تھا جلنے والوں کا
صبح جو دیکھا محفل میں پروانہ ہی پروانہ تھا
دیکھ کے وہ تصویر مری کچھ کھوئے ہوئے سے کہتے ہیں
ہاں ہاں یاد تو آتا ہے اس شکل کا اک دیوانہ تھا
غیر کا شکوہ کیوں کر رہتا دل میں جب امیدیں تھیں
اپنا پھر بھی اپنا تھا بیگانہ پھر بیگانہ تھا
بیدمؔ اس انداز سے کل یوں ہم نے کہی اپنی بیتی
ہر ایک نے سمجھا محفل میں یہ میرا ہی افسانہ تھا






