ایام جدائی میں وہ قدر وفا سمجھا
بعد از وہ ڈوبنے کے ساحل کی عطا سمجھا
ہے دل میں خدا انساں پھر بھہ ہوئے پتھر دل
نادان اس لئے تو پتھر کو خدا سمجھا
اوروں کی پزیرائی ہم یوں ہی نہیں کرتے
وہ فیل پزیرائی کو رنگ جفا سمجھا
تھی اپنی غلط فہمی کہ اس کی بے رخی کو
ایام امتحاں میں ، میں اس کو سزا سمجھا
وہ بولا پلٹ کر کہ تو میرے نہیں قابل
میں اس کی جدائی جب تدبیر خدا سمجھا
میں تیری محبت میں چند اشک کیا بہائے
دنیا نے مجھے الفت میں تیری فنا سمجھا
معروج انکےدکھ میں سب مجھکودیکھتےہیں
ہر ایک مجھ کو درد جاناں کی دوا سمجھا