ایسے چپ چپ بھی کیا جیا جائے
اب کہیں عشق ہی کیا جائے
دل کے شیشے پہ ہے غبار بہت
آج کچھ دیر رو لیا جائے
اجنبی شہر بے نمک چہرے
کسے ہم راز دل کیا جائے
حبس کی پیاس ہے بجھے گی کہاں
آب حیواں ہی گو پیا جائے
دل ہے ویران شہر بھی خاموش
فون ہی اس کو کر لیا جائے
ایک دیوار جسم باقی ہے
اب اسے بھی گرا دیا جائے
ہو گیا تار تار ہر منظر
شامؔ چاک نظر سیا جائے