چشم پہ تُونے جو یہ چشمہ سَجا رکھا ہے
ہو نہ ہو بھینگی نگاہوں کو چھُپا رکھا ہے
حُسن تیرا ہے پارلر کا رہینِ منّت
نام منہ دھُلنے پہ جوں اُلٹا توا رکھا ہے
قَد بَڑھانے کے لئے ہِیل بھی ہے جُوڑا بھی
ایڑی چوٹی کا بہت زور لگا رکھا ہے
مانگ سے رِینگ کر شانوں پہ ٹَپَک پڑتی ہیں
تُونے جُوؤں کو بہت سِر پہ چڑھا رکھا ہے
تیری آنکھوں کو کہیں جھِیل نہ کیونکر سرور
مینڈکوں نے بھی وباں ڈیرا جما رکھا ہے
(دُوسرے شعر کے دُوسرے مصرعے میں لفظ “جُوں“ مترُوک اُردو ہے اور “جیسے“ یا “کی طرح“ کے معنیٰ میں مُستعمل ہوتا تھا۔)