ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
Poet: Daniyal Tareer By: umer, khi
ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سو جاؤ خواب کا کیا ہے
پاؤں تلے ہے روند کے گزرو کچل کے دیکھو
پیچھے جاؤ آگے آؤ خواب کا کیا ہے
شیلف پہ الٹا کر کے رکھ دو اور بسرا دو
گل دانوں میں پھول سجاؤ خواب کا کیا ہے
خواب کا کیا ہے رات کے نقش و نگار بناؤ
رات کے نقش و نگار بناؤ خواب کا کیا ہے
نیند ملی ہے گڑ سے میٹھی شہد سے شیریں
گاؤ ناچو ناچو گاؤ خواب کا کیا ہے
لا یعنی ہے سب لا یعنی یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے
ایک کباڑی گلیوں آواز لگائے
راکھ خریدو آگ کے بھاؤ خواب کا کیا ہے
More Daniyal Tareer Poetry
ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سو جاؤ خواب کا کیا ہے
پاؤں تلے ہے روند کے گزرو کچل کے دیکھو
پیچھے جاؤ آگے آؤ خواب کا کیا ہے
شیلف پہ الٹا کر کے رکھ دو اور بسرا دو
گل دانوں میں پھول سجاؤ خواب کا کیا ہے
خواب کا کیا ہے رات کے نقش و نگار بناؤ
رات کے نقش و نگار بناؤ خواب کا کیا ہے
نیند ملی ہے گڑ سے میٹھی شہد سے شیریں
گاؤ ناچو ناچو گاؤ خواب کا کیا ہے
لا یعنی ہے سب لا یعنی یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے
ایک کباڑی گلیوں آواز لگائے
راکھ خریدو آگ کے بھاؤ خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سو جاؤ خواب کا کیا ہے
پاؤں تلے ہے روند کے گزرو کچل کے دیکھو
پیچھے جاؤ آگے آؤ خواب کا کیا ہے
شیلف پہ الٹا کر کے رکھ دو اور بسرا دو
گل دانوں میں پھول سجاؤ خواب کا کیا ہے
خواب کا کیا ہے رات کے نقش و نگار بناؤ
رات کے نقش و نگار بناؤ خواب کا کیا ہے
نیند ملی ہے گڑ سے میٹھی شہد سے شیریں
گاؤ ناچو ناچو گاؤ خواب کا کیا ہے
لا یعنی ہے سب لا یعنی یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے
ایک کباڑی گلیوں آواز لگائے
راکھ خریدو آگ کے بھاؤ خواب کا کیا ہے
umer
اجالا ہی اجالا روشنی ہی روشنی ہے اجالا ہی اجالا روشنی ہی روشنی ہے
اندھیرے میں جو تیری آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
ابھی جاگا ہوا ہوں میں کہ تھک کر سو چکا ہوں
دئیے کی لو سے کوئی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
تجسس ہر افق پر ڈھونڈھتا رہتا ہے اس کو
کہاں سے اور کیسی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
عمل کے وقت یہ احساس رہتا ہے ہمیشہ
مرے اندر سے اپنی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
میں جب بھی راستے میں اپنے پیچھے دیکھتا ہوں
وہی اشکوں میں بھیگی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
کہیں سے ہاتھ بڑھتے ہیں مرے چہرے کی جانب
کہیں سے سرخ ہوتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
درختو مجھ کو اپنے سبز پتوں میں چھپا لو
فلک سے ایک جلتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
اندھیرے میں جو تیری آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
ابھی جاگا ہوا ہوں میں کہ تھک کر سو چکا ہوں
دئیے کی لو سے کوئی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
تجسس ہر افق پر ڈھونڈھتا رہتا ہے اس کو
کہاں سے اور کیسی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
عمل کے وقت یہ احساس رہتا ہے ہمیشہ
مرے اندر سے اپنی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
میں جب بھی راستے میں اپنے پیچھے دیکھتا ہوں
وہی اشکوں میں بھیگی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
کہیں سے ہاتھ بڑھتے ہیں مرے چہرے کی جانب
کہیں سے سرخ ہوتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
درختو مجھ کو اپنے سبز پتوں میں چھپا لو
فلک سے ایک جلتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
Kamran






