(حضرت علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)
اُٹّھو ! مری جاگیر کو اِک کھیت بنادو
اِن کچے مکانوں پہ ذرا ہل ہی چلادو
گرماؤ ذرا میرا لہو کھیل سے اپنے
سرکار کے کارندوں کو آپس میں لڑادو
’’سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ‘‘
ہاری جو مجھے ووٹ نہ دے اُس کو مِٹا دو
جِس کھیت کا دہقان دِکھائے مجھے آنکھیں
’’اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلادو‘‘
دہقان کے بچے کہیں اسکول نہ جائیں
سختی سے ذرا بات یہ تم ان کو بتادو
گر روشنی ہوگی تو یہ کھائیں گے بھی زیادہ
بہتر ہے چراغوں کو بھی تم اُن کے بجھادو
’’میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سِلوں سے‘‘
میرے لیے سونے کا حرم اور بنادو
یہ ملک، یہ جاگیر ، یہ دولت بھی مری ہے
یہ بات ذرا شاعرِ محفل کو سِکھادو