ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا
Poet: Saqi Farooqi By: sana, isl
ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا
یہ سمن زار نظر آئے گا صحرا ایسا
میں نے کیا رنج دیے اشک نہ لوٹائے مجھے
اے مرے دل کوئی بے فیض نہ دیکھا ایسا
ایک مدت سے کوئی لہر نہ اٹھی مجھ میں
میری آنکھوں سے چھپا چاند کا چہرہ ایسا
رات کہتی ہے ملاقات نہ ہوگی اپنی
تو کوئی خواب نہ میں نیند کا ماتا ایسا
جسم کی سطح پہ کاغذ کی طرح زندہ ہیں
تو سمندر ہے نہ میں ڈوبنے والا ایسا
تیرے چہرے پہ اجالے کی سخاوت ایسی
اور مری روح میں نادار اندھیرا ایسا
ہر نئے درد کی پوشاک پہن لی میں نے
جاں مہذب نہ ہوئی میں تھا برہنہ ایسا
More Saqi Farooqi Poetry
ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا
یہ سمن زار نظر آئے گا صحرا ایسا
میں نے کیا رنج دیے اشک نہ لوٹائے مجھے
اے مرے دل کوئی بے فیض نہ دیکھا ایسا
ایک مدت سے کوئی لہر نہ اٹھی مجھ میں
میری آنکھوں سے چھپا چاند کا چہرہ ایسا
رات کہتی ہے ملاقات نہ ہوگی اپنی
تو کوئی خواب نہ میں نیند کا ماتا ایسا
جسم کی سطح پہ کاغذ کی طرح زندہ ہیں
تو سمندر ہے نہ میں ڈوبنے والا ایسا
تیرے چہرے پہ اجالے کی سخاوت ایسی
اور مری روح میں نادار اندھیرا ایسا
ہر نئے درد کی پوشاک پہن لی میں نے
جاں مہذب نہ ہوئی میں تھا برہنہ ایسا
یہ سمن زار نظر آئے گا صحرا ایسا
میں نے کیا رنج دیے اشک نہ لوٹائے مجھے
اے مرے دل کوئی بے فیض نہ دیکھا ایسا
ایک مدت سے کوئی لہر نہ اٹھی مجھ میں
میری آنکھوں سے چھپا چاند کا چہرہ ایسا
رات کہتی ہے ملاقات نہ ہوگی اپنی
تو کوئی خواب نہ میں نیند کا ماتا ایسا
جسم کی سطح پہ کاغذ کی طرح زندہ ہیں
تو سمندر ہے نہ میں ڈوبنے والا ایسا
تیرے چہرے پہ اجالے کی سخاوت ایسی
اور مری روح میں نادار اندھیرا ایسا
ہر نئے درد کی پوشاک پہن لی میں نے
جاں مہذب نہ ہوئی میں تھا برہنہ ایسا
sana
ابھی نظر میں ٹھہر دھیان سے اتر کے نہ جا ابھی نظر میں ٹھہر دھیان سے اتر کے نہ جا
اس ایک آن میں سب کچھ تباہ کرکے نہ جا
مجھے حجاب نہیں بوسۂ جدائی سے
مگر لبوں کے پیالے میں پیاس بھر کے نہ جا
مرے خیال میں تیرا کوئی جواز نہیں
خدا کی طرح مری ذات میں بکھر کے نہ جا
سنبھال اپنی نگاہوں میں واپسی کے سوال
مرے جواب کے پندار سے گزر کے نہ جا
ہر ایک راستہ دیوار بن کے حائل ہے
نہ جا کہ دشت نئے سلسلے ہیں گھر کے نہ جا
اس ایک آن میں سب کچھ تباہ کرکے نہ جا
مجھے حجاب نہیں بوسۂ جدائی سے
مگر لبوں کے پیالے میں پیاس بھر کے نہ جا
مرے خیال میں تیرا کوئی جواز نہیں
خدا کی طرح مری ذات میں بکھر کے نہ جا
سنبھال اپنی نگاہوں میں واپسی کے سوال
مرے جواب کے پندار سے گزر کے نہ جا
ہر ایک راستہ دیوار بن کے حائل ہے
نہ جا کہ دشت نئے سلسلے ہیں گھر کے نہ جا
ali






