ایک دن منایا جانا چاہیے
Poet: عارفہ شہزاد By: مصدق رفیق, Karachiایک دن منایا جانا چاہیے
میرا بھی
سانس کی بے آواز لہروں پر
تیرتی زندگی کے ساتھ
بے نشان ساحلوں پر
بکھری سیپیوں کے ہم راہ
سرد موسموں میں
کوچ کر جانے والے پرندوں کے سنگ
انجان سر زمینوں پر
کسی ان دیکھے رنگ کے
پھول کی پتیوں سے پھوٹتی
پر اسرار خوشبو کے بازووں میں
تم مناتے ہو مدر ڈے
اور حصار میں رہتے ہو
مامتا کے نور کے
تم مناتے ہو فادر ڈے
اور گھنے درختوں کی چھاؤں
محسوس کرتے ہو
تم مناتے ہو ویلنٹائن ڈے
اور اپنی محبوبہ کے سامنے
سرخ رو ٹھہرتے ہو
تمہارا دل طواف کرتا رہتا ہے
بے پایاں محبتوں کا
اور تم محبت کا ہر دن مناتے ہو
دکانیں سج جاتی ہیں
رنگ برنگے پھولوں سے
چاکلیٹ اور کیک کی مٹھاس سے
قیمتیں مختلف سہی
مگر اظہار کی سکت
تمہاری قوت خرید میں رہتی ہے
میں تمہارے باپ کی محبت کا
ہر رنگ
ہر ذائقہ جانتی ہوں
ایک دن منایا جانا چاہیے
میرا بھی
مجھے معلوم ہے
تم یہ دن منا سکتے ہو
مگر یہ دن
سارے دنوں میں سرایت کر گیا ہے
تم اسے نہیں ڈھونڈ سکتے
کوئی ایک دن مختص بھی کر دو
تو اس کا عنوان
تمہارے اظہار کی سکت سے باہر ہے
یہ اور بات کہ ہم مسکرا بھی لیتے تھے
وہ ایک شخص برائی پہ تل گیا تو چلو
سوال یہ ہے کہ ہم بھی کہاں فرشتے تھے
اور اب نہ آنکھ نہ آنسو نہ دھڑکنیں دل میں
تمہی کہو کہ یہ دریا کبھی اترتے تھے
جدائیوں کی گھڑی نقش نقش بولتی ہے
وہ برف بار ہوا تھی، وہ دانت بجتے تھے
اب ان کی گونج یہاں تک سنائی دیتی ہے
وہ قہقہے جو تری انجمن میں لگتے تھے
وہ ایک دن کہ محبت کا دن کہیں جس کو
کہ آگ تھی نہ تپش بس سلگتے جاتے تھے
کہاں وہ ضبط کے دعوے کہاں یہ ہم گوہرؔ
کہ ٹوٹتے تھے نہ پھر ٹوٹ کر بکھرتے تھے
آج ہم اداسی کی چھری سے
اپنے دل کو کاٹیں گے
آج ہم اپنی پلکوں پر
جلتی ہوئی موم بتی رکھ کے
ایک تار پر سے گزریں گے
ہمیں کوئی نہیں دیکھے گا
مگر ہم ہر بند کھڑکی کی طرف
دیکھیں گے
ہر دروازے کے سامنے پھول رکھیں گے
کسی نہ کسی بات پر
ہم روئیں گے اور اپنے رونے پر
ہم ہنسیں گے
آج محبت کا جنم دن ہے
آج ہم ہر درخت کے سامنے سے
گزرتے ہوئے
ٹوپی اتار کر اسے سلام کریں گے
ہر بادل کو دیکھ کے
ہاتھ ہلائیں گے
ہر ستارے کا شکریہ ادا کریں گے
ہمارے آنسوؤں نے
ہمارے ہتھیلیوں کو چھلنی کر دیا ہے
آج ہم اپنے دونوں ہاتھ
جیبوں میں ڈال کر چلیں گے
اور اگلے برس تک چلتے رہیں گے
دھوپ میں کھڑے ہو کر
درختوں کو دعائیں دیں
جن کے پاس ہمارے حصے کی تھکن ہے
آؤ آج
خشک دریا میں کھڑے ہو کر
پانی کو آواز دیں
آؤ آج
پھولوں کا رنگ اوڑھ کر
آوارگی کریں
اور تکتے رہیں آسمان کو
جہاں ہر شام اک نئی پینٹینگ سجی ہوتی ہے
آؤ آج
پرندوں کو آسمان
اور محبوباؤں کو پیش کریں
سرخ فیتے سے بندھے دل
میرا بھی
سانس کی بے آواز لہروں پر
تیرتی زندگی کے ساتھ
بے نشان ساحلوں پر
بکھری سیپیوں کے ہم راہ
سرد موسموں میں
کوچ کر جانے والے پرندوں کے سنگ
انجان سر زمینوں پر
کسی ان دیکھے رنگ کے
پھول کی پتیوں سے پھوٹتی
پر اسرار خوشبو کے بازووں میں
تم مناتے ہو مدر ڈے
اور حصار میں رہتے ہو
مامتا کے نور کے
تم مناتے ہو فادر ڈے
اور گھنے درختوں کی چھاؤں
محسوس کرتے ہو
تم مناتے ہو ویلنٹائن ڈے
اور اپنی محبوبہ کے سامنے
سرخ رو ٹھہرتے ہو
تمہارا دل طواف کرتا رہتا ہے
بے پایاں محبتوں کا
اور تم محبت کا ہر دن مناتے ہو
دکانیں سج جاتی ہیں
رنگ برنگے پھولوں سے
چاکلیٹ اور کیک کی مٹھاس سے
قیمتیں مختلف سہی
مگر اظہار کی سکت
تمہاری قوت خرید میں رہتی ہے
میں تمہارے باپ کی محبت کا
ہر رنگ
ہر ذائقہ جانتی ہوں
ایک دن منایا جانا چاہیے
میرا بھی
مجھے معلوم ہے
تم یہ دن منا سکتے ہو
مگر یہ دن
سارے دنوں میں سرایت کر گیا ہے
تم اسے نہیں ڈھونڈ سکتے
کوئی ایک دن مختص بھی کر دو
تو اس کا عنوان
تمہارے اظہار کی سکت سے باہر ہے
خدا کا شکر کہ تجھ سے ملا دیا ہے مجھے
میں ایک تیر تھا اس کی کمان میں رکھا
اور اس نے یوں ہی ہوا میں چلا دیا ہے مجھے
کسی نے آنکھیں سجائی تھیں میرے چہرے پر
کسی کا خواب تھا لیکن دکھا دیا ہے مجھے
طویل رات تھی اس کو سلا کے سویا تھا
اور اس نے خواب میں جا کر جگا دیا ہے مجھے
تو اس کی آنکھ میں آنسو ہیں کس لئے آربؔ
وہ کہہ رہا تھا کہ یکسر بھلا دیا ہے مجھے
کیسی دیوار اٹھاتے ہیں گرا دیتے ہیں
آؤ دو چار قدم چل کے بھی دیکھیں یارو
ہم سفر اپنے کہاں ہم کو دغا دیتے ہیں
جانے کیا سوچ کے اے دوست یہ ارباب چمن
زہر پاشی سے وہ پودوں کو جلا دیتے ہیں
یہ گزر گاہ کے پتھر تری ٹھوکر میں سہی
ہر قدم پر تجھے منزل کا پتا دیتے ہیں
یہ وہ دنیا ہے جہاں جھوٹ چھپانے کے لئے
لوگ سچائی کو سولی پہ چڑھا دیتے ہیں
جب بھی آتے ہیں اسے چھو کے ہوا کے جھونکے
دل کے سوئے ہوئے جذبات جگا دیتے ہیں
دور و نزدیک یہ سناٹوں کے گہرے سائے
آنے والے کسی طوفاں کا پتہ دیتے ہیں






