ہم کو سہنا ہی پڑا ذات کا دُکھ
درد میں ڈُوبی ہوئی رات کا دُکھ
پتھرو ، آو ¿ ، سہارو ، دیکھو
ایک شےشے سے ملاقات کا دُکھ
ہم کو آزادی کی خواہش نے دِیا
راکھ ہوتے ہوئے باغات کا دُکھ
اے خُدا اور مجھے قوت دے
سہہ سکوں اُن کی عنایات کا دُکھ
تُو مِلا بھی تو مجھے بخش گیا
غیر آسودہ ملاقات کا دُکھ
رہ بدلنے کی شکایت تو نہیں
دُکھ اگر ہے تو حسابات کا دُکھ
تُو ہے اِک شہر ، تجھے کیا معلوم
کیساہوتا ہے مضافات کا دُکھ
بِن ترے ساتھ رہے گا میرے
غیر تکمیل شدہ ذات کا دُکھ
چَین لینے نہیں دیتا انور
بَین کرتی ہوئی برسات کا دُکھ