اک دن کسی لڑکی سے یہ کہنے لگا لڑکا
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تہارا
لیکن مرے دل کی کبھی جاگی نہیں قسمت
بھولے سے کبھی تم نے مجھے مڑ کے نہ دیکھا
غیروں کو نہ دیکھو تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا
دیکھو جو مجھے ہنس کے تو عزت ہے یہ میری
گر میری گلی میں تمہیں منظور ہو آنا
لڑکی نے سنی بات جو لڑکے کی تو بولی
حضرت کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا
باتوں میں یہ لڑکی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کے چنگل میں پھنسا ، پھر نہیں نکلا
لڑکے نے کہا ’’واہ! فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہوگا
منظور تمہاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا
چلتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو ذرا دم بھر کے تو ہے اس میں برا کیا
اس دل کے کئی داغ دکھانے کے ہیں تم کو
باہر سے سمجھتی ہو اسے گوشت کا ٹکڑا
لڑکی نے کہا خیر یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے پاس آؤں یہ امید نہ رکھنا
بس آپ کے چنگل سے خدا مجھ کو بچائے
پھنس جائے کوئی اس میں تو نکلا نہ کبھی کا
لڑکے نے کہا دل میں، سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح ، یہ کمبخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے پتلا
یہ سوچ کے لڑکی سے کہا اس نے بڑی بی!
اللہ نے بخشا ہے جو یہ تم کو سراپا
یوں تو ہے مجھے آپ کی صورت سے محبت
جس دن سے کہیں آپ کو میں نے جو ہے دیکھا
آنکھیں ہیں تمہاری کہ پیالے ہیں یہ مے کے
ہے آپ کو اللہ نے فرصت سے بنایا
یہ حسن، یہ پوشاک، یہ خوبی ،یہ صفائی
پھر اس پہ قیامت ہے یہ چلتے ہوئے آنا
لڑکی نے سنی جب یہ خوشامد تو یہ بولی
گرچہ ہے نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
گو آپ کی تعریف بجا ہے مرے بھائی
پر مجھ کو بزرگوں نے مرے ہے یہ بتایا
گو یوں تو ہر اک شخص ہی اچھا ہے جہاں میں
کرنا نہ ہراک شخص پہ فوراً ہی بھروسا
رستے میں تو میں بات کسی سے نہ کروں گی
یہ کہہ کے گئی راہ پہ اور مڑ کے نہ دیکھا
نوٹ: جناب محمود احمد غزنوی کی فرمائش پر لکھی گئی، جس میں پہلا شعر انھوں نے ہی بنایا ہے۔