یہ عجب ساعتِ رُخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے
شہر کا شہر مجھے رختِ سفر لگتا ہے
ہم کو دِل نے نہیں حالات نے نزدیک کِیا
دُھوپ مِیں دُور سے ہر شخص شَجر لگتا ہے
جس پہ چلتے ہوئے سوچا تھا کہ لوٹ آؤں گا
اب وہ رَستہ بھی مجھے شہر بدر لگتا ہے
وقت ' لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خوابِ ہُنر لگتا ہے
ایک مُدت سے میری میری ماں نہیں سوئی " تابِش "
مِیں نے اِک بار کہا تھا کہ مجھے ڈر لگتا ہے