ایک پل تجھ سے نہیں ہوں بے خبر
دیکھ لوں تجھ کو ، جدھر ڈالوں نظر
بیت ہی جائے گی آخر غم کی رات
آ ہی جائے گی خوشی لے کر سحر
بام و در سب اجنبی لگنے لگے
اپنے گھر میں ہو گئی ہوں دربدر
تم اگر بن جاؤ میری زندگی
ختم ہو جائے گا یہ غم کا سفر
رت خزاں کی مستقل رہنی نہیں
پھول پھر کھلنے لگیں گے شاخ پر
خوش رہیں سب لوگ جس کے سائے میں
آ لگائیں ، شہر میں ایسا شجر
بارہا مجھ کو گماں گزرا صدفؔ
تم ہو میری نیکیوں ہی کا ثمر