اے اہل وفا داد جفا کیوں نہیں دیتے
Poet: Iqbal Azeem By: bilal, khi
اے اہل وفا داد جفا کیوں نہیں دیتے
سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے
اس جشن چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے
ان جھوٹے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے
جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو
تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے
دیوار کا یہ عذر سنا جائے گا کب تک
دیوار اگر ہے تو گرا کیوں نہیں دیتے
چہروں پہ جو ڈالے ہوئے بیٹھے ہیں نقابیں
ان لوگوں کو محفل سے اٹھا کیوں نہیں دیتے
توبہ کا یہی وقت ہے کیا سوچ رہے ہو
سجدے میں جبینوں کو جھکا کیوں نہیں دیتے
یہ جھوٹے خدا مل کے ڈبو دیں گے سفینہ
تم ہادیٔ برحق کو صدا کیوں نہیں دیتے
More Iqbal Azeem Poetry
اے اہل وفا داد جفا کیوں نہیں دیتے اے اہل وفا داد جفا کیوں نہیں دیتے
سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے
اس جشن چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے
ان جھوٹے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے
جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو
تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے
دیوار کا یہ عذر سنا جائے گا کب تک
دیوار اگر ہے تو گرا کیوں نہیں دیتے
چہروں پہ جو ڈالے ہوئے بیٹھے ہیں نقابیں
ان لوگوں کو محفل سے اٹھا کیوں نہیں دیتے
توبہ کا یہی وقت ہے کیا سوچ رہے ہو
سجدے میں جبینوں کو جھکا کیوں نہیں دیتے
یہ جھوٹے خدا مل کے ڈبو دیں گے سفینہ
تم ہادیٔ برحق کو صدا کیوں نہیں دیتے
سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے
اس جشن چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے
ان جھوٹے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے
جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو
تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے
دیوار کا یہ عذر سنا جائے گا کب تک
دیوار اگر ہے تو گرا کیوں نہیں دیتے
چہروں پہ جو ڈالے ہوئے بیٹھے ہیں نقابیں
ان لوگوں کو محفل سے اٹھا کیوں نہیں دیتے
توبہ کا یہی وقت ہے کیا سوچ رہے ہو
سجدے میں جبینوں کو جھکا کیوں نہیں دیتے
یہ جھوٹے خدا مل کے ڈبو دیں گے سفینہ
تم ہادیٔ برحق کو صدا کیوں نہیں دیتے
bilal
جس انجمن میں دیکھو بیگانے رہ گئے ہیں جس انجمن میں دیکھو بیگانے رہ گئے ہیں
گنتی کے لوگ جانے پہچانے رہ گئے ہیں
کل جن حقیقتوں سے ماحول معتبر تھا
آج ان حقیقتوں کے افسانے رہ گئے ہیں
اب غارت چمن میں کیا رہ گیا ہے باقی
کچھ پیرہن دریدہ دیوانے رہ گئے ہیں
تاریخ عہد رفتہ بالاختصار یہ ہے
گلشن جہاں جہاں تھے ویرانے رہ گئے ہیں
اقبالؔ ڈھونڈھتے ہو تم جن کو محفلوں میں
ان کی جگہ اب ان کے افسانے رہ گئے ہیں
گنتی کے لوگ جانے پہچانے رہ گئے ہیں
کل جن حقیقتوں سے ماحول معتبر تھا
آج ان حقیقتوں کے افسانے رہ گئے ہیں
اب غارت چمن میں کیا رہ گیا ہے باقی
کچھ پیرہن دریدہ دیوانے رہ گئے ہیں
تاریخ عہد رفتہ بالاختصار یہ ہے
گلشن جہاں جہاں تھے ویرانے رہ گئے ہیں
اقبالؔ ڈھونڈھتے ہو تم جن کو محفلوں میں
ان کی جگہ اب ان کے افسانے رہ گئے ہیں
sajida
آپ میری طبیعت سے واقف نہیں مجھ کو بے جا تکلف کی عادت نہیں آپ میری طبیعت سے واقف نہیں مجھ کو بے جا تکلف کی عادت نہیں
مجھ کو پرسش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی اور پرسش کی اب بھی ضرورت نہیں
یوں سر راہ بھی پرسش حال کی اس زمانے میں فرصت کسی کو کہاں
آپ سے یہ ملاقات رسمی سہی اتنی زحمت بھی کچھ کم عنایت نہیں
آپ اس درجہ افسردہ خاطر ہوں آپ کوئی اثر اپنے دل پر نہ لیں
میں نے جو کچھ کہا اک فسانہ کہا اور فسانے کی کوئی حقیقت نہیں
ایسی محفل میں شرکت سے کیا فائدہ ایسے لوگوں سے کوئی توقع بھی کیا
جو کہا جائے خاموش سنتے رہو لب کشائی کی قطعاً اجازت نہیں
نکتہ چینی تو فطرت ہے انسان کی کس کا شکوہ کریں کس کو الزام دیں
خود ہمیں کون سے پارساؤں میں ہیں ہم کو دنیا سے کوئی شکایت نہیں
مجھ کو معلوم ہے آپ مجبور ہیں آپ میرے لیے مفت رسوا نہ ہوں
ایسے حالات میں بے رخی ٹھیک ہے مجھ کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں
کچھ یہ اقبالؔ ہی پر نہیں منحصر سرگرانی مسلط ہے ماحول پر
عقل و دانش کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے سر اٹھانے کی دنیا کو فرصت نہیں
مجھ کو پرسش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی اور پرسش کی اب بھی ضرورت نہیں
یوں سر راہ بھی پرسش حال کی اس زمانے میں فرصت کسی کو کہاں
آپ سے یہ ملاقات رسمی سہی اتنی زحمت بھی کچھ کم عنایت نہیں
آپ اس درجہ افسردہ خاطر ہوں آپ کوئی اثر اپنے دل پر نہ لیں
میں نے جو کچھ کہا اک فسانہ کہا اور فسانے کی کوئی حقیقت نہیں
ایسی محفل میں شرکت سے کیا فائدہ ایسے لوگوں سے کوئی توقع بھی کیا
جو کہا جائے خاموش سنتے رہو لب کشائی کی قطعاً اجازت نہیں
نکتہ چینی تو فطرت ہے انسان کی کس کا شکوہ کریں کس کو الزام دیں
خود ہمیں کون سے پارساؤں میں ہیں ہم کو دنیا سے کوئی شکایت نہیں
مجھ کو معلوم ہے آپ مجبور ہیں آپ میرے لیے مفت رسوا نہ ہوں
ایسے حالات میں بے رخی ٹھیک ہے مجھ کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں
کچھ یہ اقبالؔ ہی پر نہیں منحصر سرگرانی مسلط ہے ماحول پر
عقل و دانش کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے سر اٹھانے کی دنیا کو فرصت نہیں
ulfat
اب اسے کیا کرے کوئی آنکھوں میں روشنی نہیں اب اسے کیا کرے کوئی آنکھوں میں روشنی نہیں
شہر بھی اجنبی نہیں لوگ بھی اجنبی نہیں
ہم نے یہ سوچ کر کبھی جرأت عرض کی نہیں
شکوہ بصد خلوص بھی شیوۂ دوستی نہیں
یوں تو بڑے خلوص سے لوگ ہوئے ہیں ہم سفر
راہ میں ساتھ چھوڑ دیں ان سے بعید بھی نہیں
پرسش حال کے سوا کوئی کرے بھی کیا مگر
پرسش حال دوستو طنز ہے دوستی نہیں
بیتے ہوئے خوشی کے دن بھولی ہوئی کہانیاں
آپ کو یاد ہوں تو ہوں ہم کو تو یاد بھی نہیں
شہر بھی اجنبی نہیں لوگ بھی اجنبی نہیں
ہم نے یہ سوچ کر کبھی جرأت عرض کی نہیں
شکوہ بصد خلوص بھی شیوۂ دوستی نہیں
یوں تو بڑے خلوص سے لوگ ہوئے ہیں ہم سفر
راہ میں ساتھ چھوڑ دیں ان سے بعید بھی نہیں
پرسش حال کے سوا کوئی کرے بھی کیا مگر
پرسش حال دوستو طنز ہے دوستی نہیں
بیتے ہوئے خوشی کے دن بھولی ہوئی کہانیاں
آپ کو یاد ہوں تو ہوں ہم کو تو یاد بھی نہیں
mustafa
وہ یوں ملا کہ بظاہر خفا خفا سا لگا وہ یوں ملا کہ بظاہر خفا خفا سا لگا
نہ جانے کیوں وہ مجھے پھر بھی با وفا سا لگا
مزاج اس نے نہ پوچھا مگر سلام لیا
یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا
غبار وقت نے کچھ یوں بدل دیئے چہرے
خود اپنا شہر بھی مجھ کو نیا نیا سا لگا
گھٹی گھٹی سی لگی رات انجمن کی فضا
چراغ جو بھی جلا کچھ بجھا بجھا سا لگا
جو ہم پہ گزری ہے شاید سبھی پہ گزری ہو
فسانہ جو بھی سنا کچھ سنا سنا سا لگا
مجال عرض تمنا کرے کوئی کیسے
جو لفظ ہونٹوں پہ آیا ڈرا ڈرا سا لگا
میں گھر سے چل کے اکیلا یہاں تک آیا ہوں
جو ہم سفر بھی ملا کچھ تھکا تھکا سا لگا
اسی کا نام ہے شائستگی و پاس وفا
پلک تک آ کے جو آنسو تھما تھما سا لگا
کچھ اس خلوص سے اس نے کہا مجھے اقبالؔ
خود اپنا نام بھی مجھ کو بڑا بڑا سا لگا
نہ جانے کیوں وہ مجھے پھر بھی با وفا سا لگا
مزاج اس نے نہ پوچھا مگر سلام لیا
یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا
غبار وقت نے کچھ یوں بدل دیئے چہرے
خود اپنا شہر بھی مجھ کو نیا نیا سا لگا
گھٹی گھٹی سی لگی رات انجمن کی فضا
چراغ جو بھی جلا کچھ بجھا بجھا سا لگا
جو ہم پہ گزری ہے شاید سبھی پہ گزری ہو
فسانہ جو بھی سنا کچھ سنا سنا سا لگا
مجال عرض تمنا کرے کوئی کیسے
جو لفظ ہونٹوں پہ آیا ڈرا ڈرا سا لگا
میں گھر سے چل کے اکیلا یہاں تک آیا ہوں
جو ہم سفر بھی ملا کچھ تھکا تھکا سا لگا
اسی کا نام ہے شائستگی و پاس وفا
پلک تک آ کے جو آنسو تھما تھما سا لگا
کچھ اس خلوص سے اس نے کہا مجھے اقبالؔ
خود اپنا نام بھی مجھ کو بڑا بڑا سا لگا
kaleem
نقش ماضی کے جو باقی ہیں مٹا مت دینا نقش ماضی کے جو باقی ہیں مٹا مت دینا
یہ بزرگوں کی امانت ہے گنوا مت دینا
وہ جو رزاق حقیقی ہے اسی سے مانگو
رزق برحق ہے کہیں اور صدا مت دینا
بھیک مانگو بھی تو بچوں سے چھپا کر مانگو
تم بھکاری ہو کہیں ان کو بتا مت دینا
صبح صادق میں بہت دیر نہیں ہے لیکن
کہیں عجلت میں چراغوں کو بجھا مت دینا
میں نے جو کچھ بھی کہا صرف محبت میں کہا
مجھ کو اس جرم محبت کی سزا مت دینا
یہ بزرگوں کی امانت ہے گنوا مت دینا
وہ جو رزاق حقیقی ہے اسی سے مانگو
رزق برحق ہے کہیں اور صدا مت دینا
بھیک مانگو بھی تو بچوں سے چھپا کر مانگو
تم بھکاری ہو کہیں ان کو بتا مت دینا
صبح صادق میں بہت دیر نہیں ہے لیکن
کہیں عجلت میں چراغوں کو بجھا مت دینا
میں نے جو کچھ بھی کہا صرف محبت میں کہا
مجھ کو اس جرم محبت کی سزا مت دینا
deeba






