شب دیجور میں جب تیرا ذکر کرنے لگا
سحر تھی دور مگر نور سا بکھرنے لگا
ترے جمال کی باتیں زباں نے کی جو بیاں
لبوں پہ پھول کھلے باغ دل سنورنے لگا
جھکا جو تیرے لیے تو رہا نہ درد کوئ
یوں میری روح کا ہر ایک زخم بھرنے لگا
میں جزب و مستی میں کچھ ایسا کھو گیا یا رب !
کہ تیرا نقش نہاں زہن میں ابھرنے لگا
مجھے تو شوق سفر سے ہی مل گئ منزل
قدم اٹھے بھی نہ تھے راستہ گزرنے لگا
تری ہی یاد سے پائ ہے میں نے راحت جاں
جو اضطراب کا طوفان تھا ٹھہرنے لگا