اے دل بے ادب اس یار کی سوگند نہ کھا
توں ہر اک بات میں دل دار کی سوگند نہ کھا
روح چندر بدن اے بو الہوس آزردہ نہ کر
خوب نہیں تربت مہیار کی سوگند نہ کھا
یہ ادا سرو میں زنہار نہیں اے قمری
یار کے قامت و رفتار کی سوگند نہ کھا
خوف کر خط کی سیاہی ستی اے وعدہ خلاف
ہر گھڑی مصحف رخسار کی سوگند نہ کھا
اپنی آنکھوں کی قسم کھا کہ لیا نہیں میں نے
جان لے کر دل بیمار کی سوگند نہ کھا
پیچ دے دے کے مرے دل کوں پریشاں تو کیا
ناحق اس زلف گرہ دار کی سوگند نہ کھا
تاب اس رخ کی تجلی کی نہیں تجھ کوں سراجؔ
توں عبث شعلۂ دیدار کی سوگند نہ کھا