اے فرعونِ وقت تُو نے بہت ستایا ہے
ہر ساعت رعایا پہ اک نیا ظلم ڈھایا ہے
تڑپ رہی ہو گی لحد میں روح اقبال کی
جیسے تُو نے خودی کا تماشہ بنایا ہے
اے مسیحائی کے دعوے دار یہ تو بتا
جو بار اُٹھا نہیں سکتا تھا کیوں اُٹھایا ہے
بدعنوان سینہ ٹھوک کے پھر رہے ہیں
تُو نے مفلسوں کو سولی پہ لٹکایا ہے
تف تری سیاست پہ تف ترے منشور پہ
تُو نے قوم کے جذبات کا مذاق اُڑایا ہے
سمیٹ اپنی تبدیلی کے بیج اور چلتا بن
اُخوت ترا شیوا نہیں تو نفرت لے کر آیا ہے
صاحبِ اقتدار ہو کے جو بے بس ہے وسیم
اُسے دیکھو تو دیوار سے کس نے لگایا ہے