اے ماں
تیری یادوں کا سہارہ ہی
مجھے ہر شے سے پیارا ہے
تیرا وہ پیار برسانا، مجھے اب یاد آتا ہے
میرے سر کو سہلانا ، مجھے ہر دم رلاتا ہے
مجھے بانہوں میں بھر لینا
میری آنکھوں کو بگھو تا ہے
میں یہ کیسے بتاؤں کہ
مجھے اب تک نہیں بھولا
تیرے جانے کا وہ ایک پل
مجھے اب تک نہیں بھولا
تیرے سنگ گزرا ہر پل
محبت سے بھی تھا سرشار
مداوا بھی دکھوں کا تھا
تیرے جانے کے بعد اکثر
انہی یادوں کے گوشوں میں
میں یہ سوچتی ہوں اب
تجھے یاد کر کرکے
میں راتوں کو نہیں سوتی
مگر اے پیاری امی جان
کیا تو بھی مجھے یاد کرتی ہے؟
کیااب بھی
تمہیں میرا بچپن یاد آتا ہے؟
میرے دل میں چھپے آنسو ، جو تو بھانپ لیتی تھی
کیا اب بھی
انہیں تو دیکھ پاتی ہے؟
میرے دل کے ارمانوں کو
جو تو اک پل میں پہچان لیتی تھی
کیا اب بھی
تمہیں وہ محسوس ہوتے ہیں ؟
میرے دل کی خواہشوں کو جو تو پورا کرتی تھی
کیا اب بھی
انہیں تونیا روپ دے سکتی ہے ؟
کیا اب بھی
تمہاری دعاؤں کے آنچل میں ، میں سموئی ہوں ؟
اے ماں، بتا مجھ کو؟؟؟