اے ماں
Poet: rahat jabeen By: rahat jabeen, awaranاے ماں
تیری یادوں کا سہارہ ہی
مجھے ہر شے سے پیارا ہے
تیرا وہ پیار برسانا، مجھے اب یاد آتا ہے
میرے سر کو سہلانا ، مجھے ہر دم رلاتا ہے
مجھے بانہوں میں بھر لینا
میری آنکھوں کو بگھو تا ہے
میں یہ کیسے بتاؤں کہ
مجھے اب تک نہیں بھولا
تیرے جانے کا وہ ایک پل
مجھے اب تک نہیں بھولا
تیرے سنگ گزرا ہر پل
محبت سے بھی تھا سرشار
مداوا بھی دکھوں کا تھا
تیرے جانے کے بعد اکثر
انہی یادوں کے گوشوں میں
میں یہ سوچتی ہوں اب
تجھے یاد کر کرکے
میں راتوں کو نہیں سوتی
مگر اے پیاری امی جان
کیا تو بھی مجھے یاد کرتی ہے؟
کیااب بھی
تمہیں میرا بچپن یاد آتا ہے؟
میرے دل میں چھپے آنسو ، جو تو بھانپ لیتی تھی
کیا اب بھی
انہیں تو دیکھ پاتی ہے؟
میرے دل کے ارمانوں کو
جو تو اک پل میں پہچان لیتی تھی
کیا اب بھی
تمہیں وہ محسوس ہوتے ہیں ؟
میرے دل کی خواہشوں کو جو تو پورا کرتی تھی
کیا اب بھی
انہیں تونیا روپ دے سکتی ہے ؟
کیا اب بھی
تمہاری دعاؤں کے آنچل میں ، میں سموئی ہوں ؟
اے ماں، بتا مجھ کو؟؟؟
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں






