ہر سمت پھیلا خوف سا
ہر سو کالے بادل ہیں
ہر اور ابھرتا شور سا
ہر جا بہتا لہو کا دریا
ممتا کا کلیجہ دہل رہا
بابا کی آنکھیں خشمگیں
اجڑے سہاگ، سونے آنگن
ڈستی وحشت، کہر اندھیرا
کس کو پکاریں کون سنے
رہبر ہمارے اندھے، بہرے
حق کی زبان کٹ چکی ہے
پھر بھی مقتل سجے سجے سے
بھیڑوں کا بہروپ سجائے ہوئے
پھر رہے ہیں وحشی درندے
کسی کا کلیجہ چھلنی کرتے
کسی کا سہاگ اجاڑتے ہوئے
مہاراج ہمارے پاگل کتے
کسی کے ٹکڑوں پہ پل رہے
کسی کہ در پہ پڑے ہوئے
اپنی ماں کے بیوپاری
بہنوں کی چادریں بیچنے والے
اندھیری غاروں میں بیٹھ کر
سورج کو کوسنے دینے والے
کیا خاک سحر کو سینچیں گے
اور تاروں پر کمند ڈالیں گے
اے نوجوانان ارض وطن!
کیا تمہاری رگوں کا خون بھی
جم گیا ہے جسم میں ہی
نہیں تو اٹھو سنبھالو پرچم
اتار پھینکو طوق غلامی
کہ منتظر ہے قوم ساری
اب تم ہی محمود تم ہی قاسم
نبھاؤ تقاضے، آنکھیں کھولو
گر جینے کی خواہش ہے تم میں
تو سینچ کے دکھاؤ اپنی سحر
کمند اٹھاؤ تاروں پہ ڈالو
افلاک کو کر لو مٹھی میں بند
دکھا دو ظلم کے رہبروں کو
یہ لہو اتنا ارزاں نہیں ہے
یہ قوم اتنی سہل نہیں ہے