بابا
گردوں میں ہیں ستارے
آسماں بھی پکارے
تیری چاہ رہے سلامت
بابا
سر دشت لگے منگل
صحرا نہ لگے پیاسا
سمندر بھی تجھ سے آدھا
بابا
تصور مات کھائے
دل چیر جو دکھائے
ہستی لگے برادہ
بابا
تپتی آگ نم ہو
نہیں کوئ تجھکو غم ہو
لخت جگر پکارے
بابا
کون ہیں سہارے
تیرے نقش جو دکھائیں
محبتوں کو سنبھالے
بابا
دے آرزوؤں کو ماتیں
مظرب جو ذاتیں
پکارتی ہیں راتیں
بابا
گھسٹ گھسٹ گزاریں
لپٹ لپٹ ستائیں
تیرے لمس کی وہ یادیں
بابا
وہ ساون بھادوں
وہ تلسی کا پیڑ گھر کا
وہ جھولا اس نگر کا
بابا
سسک سسک جائیں
بھٹک گئے جو تارے
ہو تم کتنے پیارے
بابا