باربار سوچوں میں اکثر شب تنہائی میں
وہ یار کیوں روٹھا اس روز شب تنہائی میں
ٹوٹے اس کے جذبات میرے دل کو توڑ گئے
ہائے وہ مجھے اشکوں میں بھیگتا چھوڑ گئے
غم عاشقی سے نکلے نہ تھے کہ غم دوستی نے جھنجوڑ دیا
مقدر ہی کچھ ایسا رہا جسکو چاہ اسی نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
گلہ کیا کریں کسی سے گزر ہی جاتی ہیں وحشت ہجر کی راتیں لیکن
چپکے چپکے سے تڑپنے کا فن سکھلا جاتی ہیں وہ گہری گھٹن بھری راتیں
تیری گردش یاد میرے اندر کے شجر خزاں کو تازہ کر جاتی ہے
رگ رگ میں بہتی تیری ہر شوخ مست ادا من کو میرے بہلا جاتی ہے
لب میرے ایسے میں تیرے لئے دعاؤں سے سرشار ہیں
یہی میری وفا دوستی کے کچھ وکھرے سے انداز ہیں
تیرے روٹھنے کا روگ اب بھی کہیں ہے لیکن ,دوست
ہم پھر بھی نذرانہ وفا لئے تیری چوکھٹ پر بیٹھے ہیں
اور انتظار کی گھڑیوں میں یہ سوچ رہی ہے کنول
وہ یار کیوں روٹھ گیا مجھ سے اس روز شب تنہائی میں