بارش
Poet: Tariq Iqbal Haavi By: Tariq Iqbal Haavi, Lahore
ہر بارش میں ، یوں کرتا ہوں
بوندیں ہاتھوں میں، بھرتا ہوں
تیرے بارے میں ہی، سوچوں میں
ہر بوند میں تجھ کو، ڈھونڈوں میں
کہ پچھلے برس، اس موسم میں
ہم ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے
اُس موسم کی، ہر بارش میں
ہم ساتھ ساتھ ہی بھیگے تھے
جو تم نے مجھے کہا تھا جاناں
بس اسی کو سوچ رہا تھا جاناں
کہ موسم بے پرواہ ہے ناں
کتنا بیوفا ہے ناں
پل میں بارش، پل میں دھوپ
کیسے بدلے ہے یہ روپ
کبھی گلشن کو بہار یہ دے
کبھی پت جھڑ میں پھر مار یہ دے
تم بھی تو ایسے نکلے
جیسا کہتے تھے ، تم موسم کو
خود بھی تو ہو ویسے نکلے
تم کتنے بے پرواہ ہو ناں
موسم سے بیوفا ہو ناں
جو تم نے سنگ بیتانے تھے
وہ موسم پھر بیتائے کیوں نہ؟
لوٹ آیا ہے وہی موسم پھر سے
تم بھی لوٹ کے آئے کیوں نہ؟
موسم بے پرواہ نہ ہے
تجھ سا بیوفا نہ ہے
بارشوں کے آنے سے
میں اسی بہانے سے
جی بھر کے رو لیتا ہوں
غبار من کا دھو لیتا ہوں
(طارق اقبال حاوی)
آسماں ہوتا رہے اشک فشاں بارش میں
سارے صحرائی رہائی کے تمنائی نہ تھے
آ گیا لے کے ہمیں قیس کہاں بارش میں
گھونسلے ٹوٹ گئے پیڑ گرے باندھ گرے
گاؤں پہ پھر بھی جواں نشۂ جاں بارش میں
تیری سرسبز بہاروں پہ دمکتے قطرے
لوح محفوظ کے کچھ رمز نہاں بارش میں
لب احساس کبھی تو کسی قابل ہو جا
چوم لے منزل مبہم کے نشاں بارش میں
ہانپتی کانپتی مضبوط ارادوں والی
بنچ پہ بیٹھی ہوئی محو گماں بارش میں
پہلی ٹپ ٹپ ہی مرے ہوش اڑا دیتی ہے
نیند اڑتی ہے اٹک جاتی ہے جاں بارش میں
آج بھی ڈرتا ہوں بجلی کے کڑاکے سے بہت
اس کو قابو میں کیا کرتی تھی ماں بارش میں
میرے کمرے کا مکیں حبس گلا گھونٹتا ہے
کوئی تو رمز اذیت ہے نہاں بارش میں
اب کے ساون بھی گیا مجھ پہ نہ برسا بادل
سیپ بجھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھتے ہیں
کیسی برسات مری جان کہاں کا بادل
وہ بھی دن تھے کہ ٹپکتا تھا چھتوں سے پہروں
اب کے پل بھر بھی منڈیروں پہ نہ ٹھہرا بادل
فرش پر گر کے بکھرتا رہا پارے کی طرح
سبز باغوں میں مرے بعد نہ جھولا بادل
لاکھ چاہا نہ ملی پیار کی پیاسی آغوش
گھر کی دیوار سے سر پھوڑ کے رویا بادل
آج کی شب بھی جہنم میں سلگتے ہی کٹی
آج کی شب بھی تو بوتل سے نہ چھلکا بادل






