اپنے والد کی وفات پر کہی گئی ایک بہت ہی جذباتی نظم
تمہاری قبر پر
میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مر نہیں سکتے
تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی
وہ جھوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سوکھا ہوا پتہ ہوا سے مل کے ٹوٹا تھا
مری آنکھیں
تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں
وہ وہی ہے
جو تمہاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اٹھاتا ہوں
تمہیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمہاری
لغزشوں ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمہارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لاچاریوں میں تم
تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا ہے
وہ جھوٹا ہے
تمہاری قبر میں میں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا