کون کہتا ہے شبیر کو نہیں ملا پانی
لبِ حسین کو چومنے سے محروم رہا پانی
محصور ہوگیا تھا یزیدیوں کے پہرے میں
مجبوریوں پہ اپنی روتے روتے ہوئے بہا پانی
ایک قطرہ نہیں ملے گا کہا دشمن نے
فرمایا گر چاہوں میں ہوجائے کربلا پانی
پہنچ جاؤں گا ابھی اہلبیت کے خیموں میں
اس خوشی میں مشکیزہ میں جھومنے لگا پانی
شہید ہوگیا مشکیزہ اعداء کے تیروں سے
غم سے نڈھال روتا ہوا گر پڑا پانی
مانگے دوگھونٹ شیر خوار کیلئے حسین نے
مار دیا تیر معصوم کو نہ دیا پانی
گرچہ کمی نہیں تھی ظالم کے ظلم میں
عجیب صبر ہے آنکھوں سے نہ نکلا پانی
ملاوٹ ہے اس میں اہلبیت کے خون کی
حلق میں ان کے پھر کیسے اترتا پانی
پیاسے شہید ہوتے رہے مالک حوض کوثر کے
جنت میں فرشتوں نے انہیں پیش کیا پانی
کتنا بڑا احسانِ حسین ہے امتِ مصطفی پر
ورنہ دنیا میں نہ کسی کو ملتا پانی
پہنچائے گا ضرور جنت میں حب داروں کو
غمِ حسین میں صدیقؔ آنکھوں سے برستا پانی