بریلی جس میں رضا مکیں ہے
عقیدتوں کی حسیں زمیں ہے
چمک سے جس کی دمک اُٹھے دل
وہ عشق کا اِ ک مہِ مبیں ہے
زمینِ ہندوستاں پہ لوگو!
رضا سا واصف کوئی نہیں ہے
اسی پہ چلنا نجات اپنی
رضا کا رستہ بڑا حسیں ہے
افق افق آج اس کا چرچا
کہاں نہیں ہے کہاں نہیں ہے
بتایا نبیوں کا اُس نے رتبہ
وہی تو حامیِّ مرسلیں ہے
وہ گلشن عشقِ مصطفیٰ کا
چہکتا اک بلبلِ حسیں ہے
دلوں کو ایماں کی روشنی دی
وہ جگمگاتا حسین نگیں ہے
ہے ترجمہ اس کا کنزِ ایماں
ورق ورق پر دُرِ ثمیں ہے
بچایا فتنوں سے دینِ حق کو
محافظِ مذہبِ متیں ہے
وہ ضرب کاری عدوے دیں پر
وہ اپنوں میں مثلِ ریشمیں ہے
طبیب ہے بدعقیدگی کا
وہ دینِ احمد کا اک امیں ہے
رضا کے احساں کو یاد کرکے
ہر ایک سُنّی کی خم جبیں ہے
رضا ہے چشم و چراغ اس کا
جو سات اقطاب کی زمیں ہے
سُن اے مُشاہدؔ ترے قلم پر
رضا کا فیضان بالیقیں ہے