صحراؤں کو غاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
گلفام بہاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
بے انت کناروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
انمول اشاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
ریشم سے نظاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
رم جھم سے سہاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
گلیوں کو چوباروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
شاعر سبھی یاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
کلیوں کو شراروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
قولوں کو قراروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
سب عشق کے ماروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
سب تیز طراروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
نقشوں کو نگاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
سب دل کے بیماروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
لفظوں کے پکاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاکے
بحروں کے بخاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
رنجور دیاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
سب عرض گزاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
واہ واہ کی پکاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
سب پھولوں کے ہاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
پانوں کو چھوہاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
سو سو کو ہزاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
منصف کو معیاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
تقدیر کے دھاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
قصوں کی مہاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
نقدوں کو ادھاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
جرات کو جراروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
یلغار کو واروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
کوچوں کو بازاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
چھتوں کو دیواروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
المختصر بم کی ابھی افواہ ہی اڑی تھی
سب چاند ستاروں کو وہیں چھوڑ کے بھاگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر حضرات اس خیالی منظر کو حوصلے سے تصور کریں ۔۔۔ضعف قلب کی حالت میں ایسی خوناک شاعری پڑھنے اور ایسے مشاعروں میں جانے سے پرہیز کریں جہاں سیکورٹی کا خاطر خواہ یا خواہ مخواہ انتظام نہ ہو ۔۔۔ بزم سخن کو افواہ ساز عناصر کی پہنچ سے دور رکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منجانب : ادارہ تحفظ شعری حیات و مخولیات و انسداد افواہ سازی