مجھ کو جنت میں چاہے نہ جینا ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
تیرگی سے اجالوں کے دستور تک
ہر طرف روشنی ہو جہاں دور تک
لے چلے جو مجھے ساحلِ نور تک
بحرِ ہجرت میں ایسا سفینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
بے عمل عشقِ کامل نہ کہلا سکے
یہ دیوانی بھی دربار تک جا سکے
سنت و سیرتِ شاہ اپنا سکے
اِس کو جینے کا احسن قرینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
اُجڑی اُجڑی ہوئی زندگی ہے یہاں
آتشِ ہجر کا ہے دھواں ہی دھواں
میرے آقا بدل جائے میرا جہاں
یثربی زندگی کو وہ زینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
سامنے ہو سدا قریہ ء مصطفیٰ
وا کرُوں تو ملے روضہ ء مصطفیٰ
بند ہوں تو ملے جلوہ ء مصطفیٰ
پُتلیوں کو وہ اِک آبگینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
جاہ و حشمت مری آرزو ہی نہیں
تُزک و رفعت مری جستجو ہی نہیں
زر پرستی تو عاشی کی خو ہی نہیں
صرف نعتِ نبی کا خزینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے