بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا
Poet: Adil Mansuri By: laiba, khi
بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا
میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا
گھونگھٹ میں مرے خواب کی تعبیر چھپی تھی
مہندی سے ہتھیلی میں مرا نام لکھا تھا
لب تھے کہ کسی پیالی کے ہونٹوں پہ جھکے تھے
اور ہاتھ کہیں گردن مینا میں پڑا تھا
حمام کے آئینے میں شب ڈوب رہی تھی
سگریٹ سے نئے دن کا دھواں پھیل رہا تھا
دریا کے کنارے پہ مری لاش پڑی تھی
اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا
معلوم نہیں پھر وہ کہاں چھپ گیا عادلؔ
سایہ سا کوئی لمس کی سرحد پہ ملا تھا
More Adil Mansuri Poetry
اب ٹوٹنے ہی والا ہے تنہائی کا حصار اب ٹوٹنے ہی والا ہے تنہائی کا حصار
اک شخص چیختا ہے سمندر کے آر پار
آنکھوں سے راہ نکلی ہے تحت الشعور تک
رگ رگ میں رینگتا ہے سلگتا ہوا خمار
گرتے رہے نجوم اندھیرے کی زلف سے
شب بھر رہیں خموشیاں سایوں سے ہمکنار
دیوار و در پہ خوشبو کے ہالے بکھر گئے
تنہائی کے فرشتوں نے چومی قبائے یار
کب تک پڑے رہو گے ہواؤں کے ہاتھ میں
کب تک چلے گا کھوکھلے شبدوں کا کاروبار
اک شخص چیختا ہے سمندر کے آر پار
آنکھوں سے راہ نکلی ہے تحت الشعور تک
رگ رگ میں رینگتا ہے سلگتا ہوا خمار
گرتے رہے نجوم اندھیرے کی زلف سے
شب بھر رہیں خموشیاں سایوں سے ہمکنار
دیوار و در پہ خوشبو کے ہالے بکھر گئے
تنہائی کے فرشتوں نے چومی قبائے یار
کب تک پڑے رہو گے ہواؤں کے ہاتھ میں
کب تک چلے گا کھوکھلے شبدوں کا کاروبار
Qaiser
عاشق تھے شہر میں جو پرانے شراب کے عاشق تھے شہر میں جو پرانے شراب کے
ہیں ان کے دل میں وسوسے اب احتساب کے
وہ جو تمہارے ہاتھ سے آ کر نکل گیا
ہم بھی قتیل ہیں اسی خانہ خراب کے
پھولوں کی سیج پر ذرا آرام کیا کیا
اس گلبدن پہ نقش اٹھ آئے گلاب کے
سوئے تو دل میں ایک جہاں جاگنے لگا
جاگے تو اپنی آنکھ میں جالے تھے خواب کے
بس تشنگی کی آنکھ سے دیکھا کرو انہیں
دریا رواں دواں ہیں چمکتے سراب کے
اوکاڑہ اتنی دور نہ ہوتا تو ایک دن
بھر لاتے سانس سانس میں گل آفتاب کے
کس طرح جمع کیجیے اب اپنے آپ کو
کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے
ہیں ان کے دل میں وسوسے اب احتساب کے
وہ جو تمہارے ہاتھ سے آ کر نکل گیا
ہم بھی قتیل ہیں اسی خانہ خراب کے
پھولوں کی سیج پر ذرا آرام کیا کیا
اس گلبدن پہ نقش اٹھ آئے گلاب کے
سوئے تو دل میں ایک جہاں جاگنے لگا
جاگے تو اپنی آنکھ میں جالے تھے خواب کے
بس تشنگی کی آنکھ سے دیکھا کرو انہیں
دریا رواں دواں ہیں چمکتے سراب کے
اوکاڑہ اتنی دور نہ ہوتا تو ایک دن
بھر لاتے سانس سانس میں گل آفتاب کے
کس طرح جمع کیجیے اب اپنے آپ کو
کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے
saad
جلنے لگے خلا میں ہواؤں کے نقش پا جلنے لگے خلا میں ہواؤں کے نقش پا
سورج کا ہاتھ شام کی گردن پہ جا پڑا
چھت پر پگھل کے جم گئی خوابوں کی چاندنی
کمرے کا درد ہانپتے سایوں کو کھا گیا
بستر میں ایک چاند تراشا تھا لمس نے
اس نے اٹھا کے چائے کے کپ میں ڈبو دیا
ہر آنکھ میں تھی ٹوٹتے لمحوں کی تشنگی
ہر جسم پہ تھا وقت کا سایہ پڑا ہوا
دیکھا تھا سب نے ڈوبنے والے کو دور دور
پانی کی انگلیوں نے کنارے کو چھو لیا
آئے گی رات منہ پہ سیاہی ملے ہوئے
رکھ دے گا دن بھی ہاتھ میں کاغذ پھٹا ہوا
سورج کا ہاتھ شام کی گردن پہ جا پڑا
چھت پر پگھل کے جم گئی خوابوں کی چاندنی
کمرے کا درد ہانپتے سایوں کو کھا گیا
بستر میں ایک چاند تراشا تھا لمس نے
اس نے اٹھا کے چائے کے کپ میں ڈبو دیا
ہر آنکھ میں تھی ٹوٹتے لمحوں کی تشنگی
ہر جسم پہ تھا وقت کا سایہ پڑا ہوا
دیکھا تھا سب نے ڈوبنے والے کو دور دور
پانی کی انگلیوں نے کنارے کو چھو لیا
آئے گی رات منہ پہ سیاہی ملے ہوئے
رکھ دے گا دن بھی ہاتھ میں کاغذ پھٹا ہوا
naheed
سڑکوں پر سورج اترا سڑکوں پر سورج اترا
سایہ سایہ ٹوٹ گیا
جب گل کا سینہ چیرا
خوشبو کا کانٹا نکلا
تو کس کے کمرے میں تھی
میں تیرے کمرے میں تھا
کھڑکی نے آنکھیں کھولی
دروازے کا دل دھڑکا
دل کی اندھی خندق میں
خواہش کا تارا ٹوٹا
جسم کے کالے جنگل میں
لذت کا چیتا لپکا
پھر بالوں میں رات ہوئی
پھر ہاتھوں میں چاند کھلا
سایہ سایہ ٹوٹ گیا
جب گل کا سینہ چیرا
خوشبو کا کانٹا نکلا
تو کس کے کمرے میں تھی
میں تیرے کمرے میں تھا
کھڑکی نے آنکھیں کھولی
دروازے کا دل دھڑکا
دل کی اندھی خندق میں
خواہش کا تارا ٹوٹا
جسم کے کالے جنگل میں
لذت کا چیتا لپکا
پھر بالوں میں رات ہوئی
پھر ہاتھوں میں چاند کھلا
Nusrat
زمیں چھوڑ کر میں کدھر جاؤں گا زمیں چھوڑ کر میں کدھر جاؤں گا
اندھیروں کے اندر اتر جاؤں گا
مری پتیاں ساری سوکھی ہوئیں
نئے موسموں میں بکھر جاؤں گا
اگر آ گیا آئنہ سامنے
تو اپنے ہی چہرے سے ڈر جاؤں گا
وہ اک آنکھ جو میری اپنی بھی ہے
نہ آئی نظر تو کدھر جاؤں گا
وہ اک شخص آواز دے گا اگر
میں خالی سڑک پر ٹھہر جاؤں گا
پلٹ کر نہ پایا کسی کو اگر
تو اپنی ہی آہٹ سے ڈر جاؤں گا
تری ذات میں سانس لی ہے سدا
تجھے چھوڑ کر میں کدھر جاؤں گا
اندھیروں کے اندر اتر جاؤں گا
مری پتیاں ساری سوکھی ہوئیں
نئے موسموں میں بکھر جاؤں گا
اگر آ گیا آئنہ سامنے
تو اپنے ہی چہرے سے ڈر جاؤں گا
وہ اک آنکھ جو میری اپنی بھی ہے
نہ آئی نظر تو کدھر جاؤں گا
وہ اک شخص آواز دے گا اگر
میں خالی سڑک پر ٹھہر جاؤں گا
پلٹ کر نہ پایا کسی کو اگر
تو اپنی ہی آہٹ سے ڈر جاؤں گا
تری ذات میں سانس لی ہے سدا
تجھے چھوڑ کر میں کدھر جاؤں گا
jabeen






