بشارت ہو کہ اب مجھ سا کوئی پاگل نہ آئے گا
Poet: Anwar Shaoor By: imran, khi
بشارت ہو کہ اب مجھ سا کوئی پاگل نہ آئے گا
یہ دور آخر دیوانگی ہے بیت جائے گا
کسی کی زندگی ضائع نہ ہوگی اب محبت میں
کوئی دھوکا نہ دے گا اب کوئی دھوکا نہ کھائے گا
نہ اب اترے گا قدسی کوئی انسانوں کی بستی پر
نہ اب جنگل میں چرواہا کوئی بھیڑیں چرائے گا
گروہ ابن آدم لاکھ بھٹکے لاکھ سر پٹکے
اب اس اندر سے کوئی راستہ باہر نہ جائے گا
بشر کو دیکھ کر بے انتہا افسوس آتا ہے
نہ معلوم اس خراباتی کو کس دن ہوش آئے گا
مٹا بھی دے مجھے اب اے مصور! تا بہ کے آخر
بنائے گا بگاڑے گا بگاڑے گا بنائے گا
محبت بھی کہیں اے دوست! تردیدوں سے چھپتی ہے
کسے قائل کرے گا تو کسے باور کرائے گا
غنیمت جان اگر دو بول بھی کانوں میں پڑ جائیں
کہ پھر یہ بولنے والا نہ روئے گا نہ گائے گا
شعورؔ آخر اسے ہم سے زیادہ جانتے ہو تم؟
بہت سیدھا سہی لیکن تمہیں تو بیچ کھائے گا
خود بناتا ہے جہاں میں آدمی اپنی جگہ
کہہ تو سکتا ہوں مگر مجبور کر سکتا نہیں
اختیار اپنی جگہ ہے بے بسی اپنی جگہ
کچھ نہ کچھ سچائی ہوتی ہے نہاں ہر بات میں
کہنے والے ٹھیک کہتے ہیں سبھی اپنی جگہ
صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں
خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ
دوست کہتا ہوں تمہیں شاعر نہیں کہتا شعورؔ
دوستی اپنی جگہ ہے شاعری اپنی جگہ
وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا
کیا کرتے تھے باتیں زندگی بھر ساتھ دینے کی
مگر یہ حوصلہ ہم میں جدا ہونے سے پہلے تھا
حقیقت سے خیال اچھا ہے بیداری سے خواب اچھا
تصور میں وہ کیسا سامنا ہونے سے پہلے تھا
اگر معدوم کو موجود کہنے میں تأمل ہے
تو جو کچھ بھی یہاں ہے آج کیا ہونے سے پہلے تھا
کسی بچھڑے ہوئے کا لوٹ آنا غیر ممکن ہے
مجھے بھی یہ گماں اک تجربہ ہونے سے پہلے تھا
شعورؔ اس سے ہمیں کیا انتہا کے بعد کیا ہوگا
بہت ہوگا تو وہ جو ابتدا ہونے سے پہلے تھا
ایک دن سب کچھ فنا ہو جائے گا
کیا پتا تھا دیکھنا اس کی طرف
حادثا اتنا بڑا ہو جائے گا
مدتوں سے بند دروازہ کوئی
دستکیں دینے سے وا ہو جائے گا
ہے ابھی تک اس کے آنے کا یقین
جیسے کوئی معجزہ ہو جائے گا
مسکرا کر دیکھ لیتے ہو مجھے
اس طرح کیا حق ادا ہو جائے گا
کاش ہو جاؤ مرے ہمراہ تم
ورنہ کوئی دوسرا ہو جائے گا
کل کا وعدہ اور اس بحران میں؟
جانے کل دنیا میں کیا ہو جائے گا
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
ظلم جب حد سے سوا ہو جائے گا
آپ کا کچھ بھی نہ جائے گا شعورؔ
ہم غریبوں کا بھلا ہو جائے گا
یہ دور آخر دیوانگی ہے بیت جائے گا
کسی کی زندگی ضائع نہ ہوگی اب محبت میں
کوئی دھوکا نہ دے گا اب کوئی دھوکا نہ کھائے گا
نہ اب اترے گا قدسی کوئی انسانوں کی بستی پر
نہ اب جنگل میں چرواہا کوئی بھیڑیں چرائے گا
گروہ ابن آدم لاکھ بھٹکے لاکھ سر پٹکے
اب اس اندر سے کوئی راستہ باہر نہ جائے گا
بشر کو دیکھ کر بے انتہا افسوس آتا ہے
نہ معلوم اس خراباتی کو کس دن ہوش آئے گا
مٹا بھی دے مجھے اب اے مصور! تا بہ کے آخر
بنائے گا بگاڑے گا بگاڑے گا بنائے گا
محبت بھی کہیں اے دوست! تردیدوں سے چھپتی ہے
کسے قائل کرے گا تو کسے باور کرائے گا
غنیمت جان اگر دو بول بھی کانوں میں پڑ جائیں
کہ پھر یہ بولنے والا نہ روئے گا نہ گائے گا
شعورؔ آخر اسے ہم سے زیادہ جانتے ہو تم؟
بہت سیدھا سہی لیکن تمہیں تو بیچ کھائے گا
گلی گلی کرتا ہوں پھیرا کوئی نہیں میرا
تیری آس پہ جیتا تھا میں وہ بھی ختم ہوئی
اب دنیا میں کون ہے میرا کوئی نہیں میرا
تیرے بجائے کون تھا میرا پہلے بھی پھر بھی
جب سے ساتھ چھٹا ہے تیرا کوئی نہیں میرا
جب بھی چاند سے چہرے دیکھے بھیگ گئیں پلکیں
پھیل گیا ہر سمت اندھیرا کوئی نہیں میرا
عجب نہیں کوئی لہر اٹھے جو پار لگا دے ناؤ
درد کی دھن میں گائے مچھیرا کوئی نہیں میرا
کوئی مسافر ہی رک جائے پل دو پل کے لیے
مدت سے ویران ہے ڈیرا کوئی نہیں میرا
میں نے قدر تیرگیٔ شب اب پہچانی جب
گزر گئی شب ہوا سویرا کوئی نہیں میرا
کوئی نہیں ہے جس کے ہاتھوں زہر پیوں مر جاؤں
بین بجائے جائے سپیرا کوئی نہیں میرا
نہ کوئی شکل ہے اس کی نہ کوئی نام اس کا
وہی خدا کبھی ملوائے گا ہمیں اس سے
جو انتظار کراتا ہے صبح و شام اس کا
ہمارے ساتھ نہیں جا سکا تھا وہ لیکن
رہا خیال سیاحت میں گام گام اس کا
خدا کو پیار ہے اپنے ہر ایک بندے سے
سفید فام ہے اس کا سیاہ فام اس کا
کما کے دیتے ہیں جو مال وہ امیروں کو
حساب کیوں نہیں لیتے کبھی عوام اس کا
ہمارا فرض ہے بے لاگ رائے کا اظہار
کوئی درست کہے یا غلط یہ کام اس کا
کہاں ہے شیخ کو سدھ بدھ مزید پینے کی
نشہ اتار گئے تین چار جام اس کا
زبان دل سے کوئی شاعری سناتا ہے
تو سامعین بھلاتے نہیں کلام اس کا
شعورؔ سب سے الگ بیٹھتا ہے محفل میں
اسی سے آپ سمجھ لیجئے مقام اس کا






