بلاوا ہو کبھی میرا تیرے در پر میرے آقا
گرا دوں تیرے قدموںمیں میں اپنا سر میرے آقا
برستی گنبد خضرا پہ اک بارش نورانی ہو
اور میں بھی ایسی بارش میں ہو جاؤں تر میرے آقا
ملاقات اجل ہو سامنے نظروں کے روضہ ہو
تو میرے واسطے کچھ ایسا چارہ کر میرے آقا
سنا ہے آپ ہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں
کبھی روشن ہو جلوے سے میرا بھی گھر میرے آقا
مرادیں پوری کر دے یوں نہ حسرت کچھ رہے دل میں
یہ جھولی میری خالی ہے تو اس کو بھر میرے آقا
امن نامی گرامی ہے مگر گمنام تھا پہلے
بنایا تو اس ذرے کو اک گوہر میرے آقا