بلبل تو جگنو کی روشنی کی ہے طلبگار
ظُلمَت شب تو درویش کو ہیں نور مینار
خیال مراتب ہو جہاں وہ ہے شاہی دربار
شاہ و گدا صرف وہیں کھڑے ہیں ایک قطار
جسے جس کی تمنا وہی ہے اس کا دلدار
جُھکنا اس کو اچھا احسان کا نہیں جو روادار
دامَن بھر بھر لیتے ہیں وہ زر انگار
تہی دَست کو ملتا ہے گلستان و گلزار
تجھ پہ مَوقُوف چاہے تو دربار یا انوار
مہکنے کو تو گل ہی ہو گا خار دار
گر تو قید یہاں وہاں سے نہیں راہ فرار
سمجھ اس بات کو وہ تو ہے بڑا مددگار
اس بازی میں تو جیت ہے یا ہار
ایک میں بیقراری ایک ہے گلزار
کیا مشکل ہے گر ہو جائے تھوڑا ابرار
ورنہ تو ہر طرف ہی ہے فگار و ضرار
کوئی کہے کہ اب نہیں ہوتا انتظار
میرے لیے تو کافی ہے یہی اشکبار
مانگیں پَناہ خُدا سے سب دل آزار
خود سے تو کبھی اوروں سے بیزار
تَکَبر سے جب اپنے ہوتے ہیں لا چار
ڈھونڈتے ہیں اپنے لیے پھر رازدار
تیرے عشق جنوں کا ہے مجھے خَشِیت بخار
نہیں ضرورت باقی اب کسی مسیحاء تیماردار