ہر اک زباں پہ فقط ملک سے بغاوت ہے
یہ پیش خیمہ ہے طوفاں کی یہ علامت ہے
وہ اسکو ساتھ لیئے سنگ سنگ پھرتا ہے
الگ یہ بات کہ دل میں بھری عداوت ہے
یہاں پیار و محبت کا گُر نہیں چلتا
اب اس نگر میں فقط جبر کی اجازت ہے
یہاں معاش بھی ملتا ہے بدمعاشی سے
یہاں پر اسلحہ، بندوق ہی ضرورت ہے
نفاق سینوں میں رکھا ہے سب نے خوب سجا
بغض و کینہ ہے اور عام اب کدورت ہے
وہ یہ سمجھتا ہے اسپر ہی سب نے ظلم کیا
یہ اور بات کہ اس میں مگر صداقت ہے
یہ چا ر سو جو اجالا ہے روشنی سی ہے
اسی کے دم سے یہاں پر ہوئی سجاوٹ ہے
یہیں سے سب کی تر قی کی راہ نکلتی ہے
یہیں پہ کوئٹہ، قلات اور زیارت ہے
تیرا وجود ضمانت یہاں بقاء کی ہے
تو مان جا کہ یہ منت میری سماجت ہے
ستم کا اپنے بھی اقرار کرلیا سب نے
تیری وفاء یہ تیرا صبر و استقامت ہے
تم اس امید کی رسی کو چھوڑ مت دینا
دلوں کو جوڑنا اشہر بڑی سعادت ہے