بن کے شعلہ زباں سے اٹھتا ہے
پیار وہم و گماں سے اٹھتا ہے
جل رہا ہے مکان جو میرا
یہ دھواں سا وہاں سے اٹھتا ہے
بن بلائے چلا جو آیا ہے
بے زباں ہے کہاں سے اٹھتا ہے
سوز ہجراں میں کرب کی ہے صدا
شور تو آسماں سے اٹھتا ہے
سہہ جدائی نہیں ہے پایا جو
غم زدہ کرب جاں سے اٹھتا ہے
طنطنہ عشق میں نہیں ہوتا
ہے کروفر زباں سے اٹھتا ہے
آج شہزاد نے دیا ہے کہہ
میرے وہ درمیاں سے اٹھتا ہے