بنا دے گی زمیں کو آج شاید آسماں بارش
کہ دھوئے جا رہی ہیں گھر کی ساری کھڑکیاں بارش
نئے صدمات کا سیلاب آیا دل کی بستی میں
نگل جائے نہ تیری یاد کی یہ کشتیاں بارش
کھلی جو آنکھ تو چہرے پہ جگ مگ تھی پھواروں کی
کہ ملنے آئی تھی کل رات مجھ سے ناگہاں بارش
بدن سے جب الگ کرتی ہو تم بھیگے ہوئے کپڑے
چھما چھم ناچتی ہے جنگلوں کے درمیاں بارش
سلیمؔ آنکھوں سے صحراؤں کا خالی پن ٹپکتا ہے
مرے اندر برستی ہے کہیں بن کر دھواں بارش