بُطونِ سنگ میں کیڑوں کو پالتا ہے تُوہی
صدف میں گوہرِ نایاب ڈھالتا ہے تُوہی
دلوں سے رنج و الم کو نکالتا ہے تُوہی
نفَس نفَس میں مَسرّت بھی ڈالتا ہے تُوہی
وہ جنّ و انس و مَلک ہوں کہ ہوں چرند و پرند
تمام نوعِ خلائق کو پالتا ہے تُوہی
بغیر لغزشِ پا تو ڈبو بھی سکتا ہے
پھسلنے والوں کو بے شک سنبھالتا ہے تُوہی
تُو ہی تو مُردہ زمینوں کو زندہ کرتا ہے
گُلوں کے جسم میں خوشبوئیں ڈالتا ہے تُوہی
ترے ذبیح کی نازک سی ایڑیوں کے طفیل
سلگتے صحرا سے زم زم نکالتا ہے تُوہی
نجات دیتا ہے بندوں کو ہر مصیبت سے
شکم سے مچھلی کے زندہ نکالتا ہے تُوہی
جو لوحِ ذہنِ مُشاہدؔ میں بھی نہیں یارب
وہ حرفِ تازہ قلم سے نکالتا ہے تُوہیچ