بچتا پھروں ہزار شیاطینِ دہر سے
مسجد میں شیخ گھات لگائے تو کیا کروں
تنہائیاں ہیں، مے ہے، غزل ہے لگی ہوئی
پھر بھی تِرا خیال نہ آئے تو کیا کروں
طرحی مشاعرے کے بہانے مِری طرح
کوئی مِری زمین چُرائے تو کیا کروں
گرچہ رہا ہے شوق بھٹکنا مِرا مُنیبؔ
ہر شخص مجھ کو راہ دِکھائے تو کیا کروں
(ایک طرحی مشاعرے کے لئےلکھے چند اشعار، دی گئی ردیف تھی "تو کیا کروں")