کبھی گھٹنے میں کبھی ٹخنے میں
کبھی ایڑی میں کبھی کاندھے کو
پورا جسم میرا اب دکھتا ہے
جیسے پیٹتا ہے کوئی باندھے کو
بڑھاپے کی یہ نشانی ہے
چلی گئی اب جوانی ہے
بیٹھیں تو اٹھ نہیں سکتے
چل پڑیں تو رک نہیں سکتے
بے وجہ زبان چلتی ہے
ٹانگ رعشے سے ہلتی ہے
پر دل جوان ہی رہتا ہے
یہ اب بھی کچھ کچھ کہتا ہے