بڑے بڑے لوگوں سے یاروں کی شناسائیاں بہت ہیں
اسی لیے میرے خلاف ہوتی محاذ آرائیاں بہت ہیں
خدا کے لیے تم لوگ مجھ پہ تہمتیں نہ لگاؤ
اس کام کے لیے میری ہمسائیاں بہت ہیں
میرے رقیبوں کو بھلا حسد کیوں نہ ہو
ریڈیو پر ہم نے دھومیں مچائیاں بہت ہیں
محبت کی دنیا میں سنبھل کر قدم رکھنا
سنا ہے ان راہوں میں کھڈے کھائیاں بہت ہیں
کم لباس میں جب نظر آتی ہیں کئی بیبیاں
لگتا ہے کہ اب کپڑے کی مہنگائیاں بہت ہیں
ہم نے تو کئی محفلوں کو رونقیں بخشیں اصغر
مگر اپنے مقدر میں تنہائیاں بہت ہیں