بڑے لوگوں سے ہماری شناسائیاں بہت ہیں
اسی لیے ہمارے خلاف محاذ آرائیاں بہت ہیں
تم لوگ مجھ پہ جھوٹی تہمتیں نہ لگاؤ
اس کام کے لیے تو میری ہمسائیاں بہت ہیں
ہر بزم میں جو دیتے ہیں درس پارسائی
ان کے اعمال نامے میں برائیاں بہت ہیں
محبت کی دنیا میں ذرا سنبھل کے قدم رکھنا
سنا ہے ان راہوں میں کھڈے کھائیاں بہت ہیں
آج وہ بھی نظرانداز کرتا ہے مجھے
جس کی خاطر ریڈیو پہ غزلیں سنائیاں بہت ہیں
اب محبت کی بازی کھیلی نہیں جاتی
اس کھیل نے ہماری ہڈیاں تڑوائیاں بہت ہیں
ہم نے تو کئی محفلوں کو رونقیں بخشیں اصغر
پھر بھی اپنی زندگی میں تنہائیاں بہت ہیں