اک بکری نے بکرے سے رو کر کہا
میرا پیچھا خدا کیلئے چھوڑ دو
عیدِ قرباں ہے نزدیک آئی ہوئی
تم محبت کے طوفاں کا رخ موڑ دو
تیری قسمت میں لکھی ہوئی ہے چھری
تو کسی اور کی ہے محبت صنم
ہنستے ہنستے چلے جائو منڈی میں تم
کہ اسی میں ہے تیری شرافت بلم
منمناتے ہوئے پھر کہا بکرے نے
جو صنم تیری الفت، محبت نہیں
پھر کیا جینا ہے میرا بھی جینا بھلا
میرے انگ انگ کا تکا بہاری سہی
یہ تقاضہ ہے میری محبت کا اب
میں لٹا دوں خودی کو بچانے وفا
میں محبت کسی کی سہی تو سہی
میں چلا سوئے منڈی کمانے جزا
وہ پہنچا جو منڈی پتا یہ چلا
مثل ِ محبوب بکروں کی ڈیمانڈ ہے
کوئی پانڈے ادھر تو کوئی خان ہے
کوئی دبلا، پہاڑی، کوئی سانڈ ہے
دن ہیں جیسے بڑھے نرخ بھی ہیں بڑھے
دام بکروں کے سارے فلک پہ چڑھے
نرخ اس کے بھی صحت سے تگنے ہوئے
جس کو سن کے محبت کے مارے کڑھے
پھر بھی ایسا ہوا کہ کوئی من چلا
کر کہ تھوڑا بہت اس کو لے ہی چلا
کر کے رکشہ پھر اس کو تھا ٹھوسا گیا
ساتھہ چارا بہت، تھوڑا بھوسا گیا
گھر جو پہنچے تو بچوں نے گھیرا اسے
دم مڑوڑی تو الفت سے پھیرا اسے
تھوڑی چارہ گری سے نوازہ گیا
پھر بڑی بے رخی سے بھگایا گیا
رات آخر ہوئی کچھ سکوں پھر ملا
چند بچوں کے حلقے میں بیٹھا رہا
ایک بچے کو اس نے یہ کہتا سنا
کل یہ پیارا سا بکرا بھی ہوگا ذبح
سن کے بکرے نے سوچا گھڑی آگئی
اک مدت سے سمجھو ضیافت رہی
میں چلا جاں لٹانے کو اس راہ پر
وہ نہیں تو ان ہی کی محبت سہی